پاکستان اور بھارت کوسندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنا ہوگی‘ سندھ طاس معاہدہ کی شقوں میں بہت سی خامیاں ہیں اس میں گلیشئر کے پانی کا ذکر نہیں، ماحولیاتی مسائل بھی سامنے ہیں

پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید کی میڈیا سے گفتگو

پیر 14 مارچ 2016 22:23

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 مارچ۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو سرکریک اور کشمیر کے ساتھ ساتھ پانی کے مسئلے پر بھی جامع مذاکرات اورسندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنا ہوگی کیونکہ سندھ طاس معاہدہ کی شقوں میں بہت سی خامیاں ہیں اس میں گلیشئر کے پانی کا ذکر نہیں، ماحولیاتی مسائل بھی سامنے ہیں۔

وہ پیر کودورہ بھارت سے واپسی پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت کے ڈیم بنانے سے پاکستان متاثر نہیں ہوگا انہیں پاکستان کی جغرافیائی حالت کو ضرور دیکھ لینا چاہئے کیونکہ پاکستان کے دو دریاء بھارت سے ہوکر پاکستان آتے ہیں اور ان کے پانی رک جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی خشک شالی اور قحط میں گم ہو جائیگی۔

(جاری ہے)

میاں محمودالرشید نے مزیدکہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جسکی زیادہ تر آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، پاکستان کو زراعت کیلئے ہر سال لاکھوں ایکڑ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر پاکستانی دریاؤں کا پانی رکتا ہے تو زراعت کا یہ علاقہ صحرا بنتے دیر نہیں لگائے گا، اسی طرح پاکستان کے صحرائی علاقوں میں ڈ جہاں پانی پہلے ہی موجود نہیں وہاں قحظ پڑ جائیگا دوسری طرف پاکستانی صنعت بھی زیادہ تر زرعی مصنوعات پر چلتی ہے اور اگر زراعت ہی بنجر پن کا شکار ہو جائیگی تو صنعتیں کیسے چلی گئیں، پاکستانی صنعت پہلے ہی زوال پذیر ہے مزید زوال کا شکار ہو جائیگی لوگوں کو نہ تو روزگار ملے گا اور نہ ہی پینے کا پانی۔