پیمرا کاآج ٹی وی کے پروگرام میں شاہد آفریدی بارے تضحیک آمیز الفاظ کانوٹس

ٹی وی مالکان کو ضابطۂ اخلاق پر عملدرآمد،نشریات میں تاخیری وقت کا نظام نصب کرنے اور ادارہ جاتی نگران کمیٹی کو فعال کرنے کی ہدایت

پیر 14 مارچ 2016 21:48

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 مارچ۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید بھارت کا سات روزہ دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے، وہ زراعت اور پانی کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت گئے تھے۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے عالمی فارم پر پاکستان میں زراعت اور پانی کے حوالے سے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا۔

وطن واپسی پر پبلک سیکرٹریٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو سرکریک اور کشمیر کے ساتھ ساتھ پانی کے مسئلے پر بھی جامع مذاکرات اورسندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنا ہوگی کیونکہ سندھ طاس معاہدہ کی شقوں میں بہت سی خامیاں ہیں اس میں گلیشئر کے پانی کا ذکر نہیں، ماحولیاتی مسائل بھی سامنے ہیں۔

(جاری ہے)

انکا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت کے ڈیم بنانے سے پاکستان متاثر نہیں ہوگا انہیں پاکستان کی جغرافیائی حالت کو ضرور دیکھ لینا چاہئے کیونکہ پاکستان کے دو دریاء بھارت سے ہوکر پاکستان آتے ہیں اور ان کے پانی رک جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی خشک شالی اور قحط میں گم ہو جائیگی۔

میاں محمودالرشید نے مزیدکہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جسکی زیادہ تر آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، پاکستان کو زراعت کیلئے ہر سال لاکھوں ایکڑ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر پاکستانی دریاؤں کا پانی رکتا ہے تو زراعت کا یہ علاقہ صحرا بنتے دیر نہیں لگائے گا، اسی طرح پاکستان کے صحرائی علاقوں میں ڈ جہاں پانی پہلے ہی موجود نہیں وہاں قحظ پڑ جائیگا دوسری طرف پاکستانی صنعت بھی زیادہ تر زرعی مصنوعات پر چلتی ہے اور اگر زراعت ہی بنجر پن کا شکار ہو جائیگی تو صنعتیں کیسے چلی گئیں، پاکستانی صنعت پہلے ہی زوال پذیر ہے مزید زوال کا شکار ہو جائیگی لوگوں کو نہ تو روزگار ملے گا اور نہ ہی پینے کا پانی۔

متعلقہ عنوان :