پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پِلاک)، محکمہ اطلاعات و ثقافت، حکومت پنجاب کے تحت ایک روزہ عالمی صوفی کانفرنس

اسلام ایسا دین انسانیت ہے جو نہ صرف حقوقِ انسان بلکہ جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ پاکستان اولیاءو صوفیاءکی سرزمین ہے جہاں داتا گنج بخش علی ہجویریؒ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور بابا بلھے شاہؒ جیسے عظیم صوفیاءنے محبت، امن اور برداشت کے پیغام کو عام کیا۔ پاکستان ثقافتی اعتبار سے ایسا ملک ہے جس کی ثقافت اتنی ہمہ جہت ہے کہ جدید دنیا کی تہذیب و ثقافت کے حامل افراد بھی اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔شرکاءکا خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 14 مارچ 2016 20:33

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پِلاک)، محکمہ اطلاعات و ..

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14مارچ۔2016ء) پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پِلاک)، محکمہ اطلاعات و ثقافت، حکومت پنجاب کے تحت ایک روزہ عالمی صوفی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے افتتاحی اجلاس میں امریکہ سے آئے ہوئے معروف عالم دین ڈاکٹر عمر فاروق عبد اللہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ دیگر شرکاءمیں شیخ محمد (گیمبیا)، عبد الصمد رومرو (سپین)، عبد العظیم (برطانیہ)، ماجد حسین (برطانیہ)، جنرل (ر) محمد یوسف خان، سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف پاکستان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسرار گھمن، بابا محمد یحییٰ خان، پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات و ثقافت پنجاب الحاج رانا محمد ارشد، ڈائریکٹر جنرل پِلاک سید طاہر رضا ہمدانی، سانول قریشی، ضرار ہشام، محترمہ بانو قدسیہ، ڈاکٹر اجمل خان نیازی اور خادم حسین سومرو، چیئرمین سندھ صوفی انسٹیٹیوٹ شامل تھے۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مہمانوں اور شرکاءکو خوش آمدید کہتے ہوئے ادارے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغرا صدف نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد صوفیاءکے پیار، امن اور رواداری کے پیغام کا فروغ ہے اور پاکستان کی سرزمین اولیاءکرام کے فیضان سے فیوض و برکات کی آماجگاہ رہی ہے جس کے باعث یہاں تصوف کی مضبوط روایات موجود ہیں۔ کانفرنس کی ترتیب و تزئین بیان کرتے ہوئے ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عاصم چوہدری نے بتایا کہ افتتاحی اجلاس کے بعد بابا محمد یحییٰ خان، سرفراز شاہ اور خادم حسین سومرو تصوف کے مختلف موضوعات پر گفتگو کریں گے اور کانفرنس کے اختتام پر معروف قوال بدر میاں داد خان کے صاحبزادے سکندر بدر میاں داد خان محفلِ سماع میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔

ڈاکٹر عمر فاروق عبد اللہ نے کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایسا دین انسانیت ہے جو نہ صرف حقوقِ انسان بلکہ جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اولیاءو صوفیاءکی سرزمین ہے جہاں داتا گنج بخش علی ہجویریؒ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور بابا بلھے شاہؒ جیسے عظیم صوفیاءنے محبت، امن اور برداشت کے پیغام کو عام کیا۔

پاکستان ثقافتی اعتبار سے ایسا ملک ہے جس کی ثقافت اتنی ہمہ جہت ہے کہ جدید دنیا کی تہذیب و ثقافت کے حامل افراد بھی اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ حسین ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی ذات کی مظہر ہے جس کی بے پایاں صفات ہمیں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ حاضرین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عمر فاروق عبد اللہ نے کہا کہ انسان کی جان و مال کی حرمت ہر چیز کی حرمت سے مقدم ہے اور اس کی بے حرمتی دنیا کے کسی مذہب میں بھی روا نہیں ہے۔

افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے انسانی جانوں کے بے دریغ ضیاع کو دین کے یکسر خلاف قرار دیا۔ کسی بھی معصوم جان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی انسان مذہب کے سہارے کے بغیر بے حد تنہا ہے لہٰذا اسلام دنیا کے کامل ترین دین کے طور پر زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ سوال و جواب کے سیشن میں انہوں نے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کرنے کے علاوہ تصوف کے حوالے سے جوابات دیئے۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے اختتام پر شبانہ عباس اور ارشد رانا نے صوفیانہ کلام پیش کر کے حاضرین سے بھرپور داد وصول کی۔ عالمی صوفی کانفرنس کے پہلے اجلاس میں معروف صوفی اور دانشور بابا محمد یحییٰ خان نے انسانیت کے لئے عشق کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عشق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ عشق احترامِ آدمیت کا درس دیتا ہے اور جس نے عشق کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا اس کے لئے کائنات کے اسرار کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔

فرزانوں، حکمت دانوں اور کیمیا دانوں نے تو اب کہیں پہنچ کر ذرے کی توانائی دریافت کی ہے۔ دیوانوں اور صوفیوں نے تو صدیوں پہلے اس روشن حقیقت کو پا لیا تھا کہ قوت عشق سے کیا کچھ دریافت کیا جا سکتا ہے اور اس سے آگے عشق کی مہک کیسے کیسے گُل بوٹوں کا پتہ دیتی ہے۔ اخلاق، ایثار، دیوانہ وار محنت، بے لوث خدمت، انسانیت سے محبت، یہ عشقِ حقیقی کے عشقِ پیچاں کی بنیادی روحانی کھادیں ہیں۔

توفیقِ الٰہی کا پانی ڈال کر جب یہ برگ و گُل نمو پاتے ہیں، ان کی مہک سے جب جذبہ اک جنوں پر راست عمل کے قلب میں ڈھلتا ہے تو ایک زبردست قوت بن کر ابھرتا ہے۔ تب اس قوتِ عشق سے پست کو بالا، ادنیٰ کو اعلیٰ، ذرے کو آفتاب، خاک کو کیمیا، قطرے کو موتی، غلام کو شہنشاہ اور عاصی کو صوفی بنا دینا دریافت ہو جاتا ہے۔ بابا محمد یحییٰ خان نے مزید کہا کہ عشق کسی مخصوص مذہب و مسلک کا مسئلہ کُلیہ نہیں اور نہ کسی دبستانِ علم و عقل کا عَلم یا نعرہ ہے۔

یہ تو خدائی خدمتگار، روشنی کا مینار، دشت و بیابان میں گڑا سنگِ میل، چٹان کی دراڑ سے رستا ہوا یخ بستہ پانی، کڑے موسم میں ابر کا ٹکڑا، معصوم سی مسکان، میٹھی نگاہ، حیا کی لہر کی طرح ہوتا ہے۔ تپ چڑھے تو شہر بھر میں شہرہ رہتا ہے، عشق چڑھے تو بے آہ و کراہ کہ لٹکے ہوئے اور گردن کے چٹخے ہوئے منکے کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ عشق ہی ہے جو ہمیں اپنے مرشد سے عشقِ مجازی کے ابتدائی مراحل طے کروا کر عشقِ حقیقی کی جانب لے جاتا ہے۔

راستے جدا جدا ہیں، حضرت بلالؓ، حضرت اویس قرنیؓ، صحابہ کرامؓ و اولیاءاللہؒ، پیر فقیر، آتشِ نمرود، سرمد، منصور اور بھی سب کچھ، اور جو ہے اور جو دکھائی نہیں دیتا، سب عشق ہے۔ بابا محمد یحییٰ خان نے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے۔ کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سرفراز احمد شاہ نے کہا کہ تصوف امن، رواداری اور برداشت کا ہی دوسرا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے حقوق و فرائض بخوبی ادا کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے۔

انسان کی انسان سے محبت ہی اس کائنات کی اصل ہے جس تک پہنچنا ہی انسان کی معراج ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کی اخلاقی اقدار ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں جس کی اصل وجہ معتبر اور اعلیٰ انسانی شعور ہے۔ جدید دنیا کے بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ انسان ذہنی سکون کی طلب میں روحانیت کا متلاشی نظر آتا ہے۔ روح اور جسم کا رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ دوسری ارواح و اجسام کی توقیر کو اپنے اوپر لازم کر لیا جائے تبھی معاشرے میں امن اور پیار کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔

کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں ڈاکٹر صغرا صدف اور نور الحسن نے تصوف کی عالمی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صوفی ہمیشہ اپنے آپ سے عمل کا آغاز کرتا ہے اور دوسروں کو کھلے عام وعظ و نصیحت کی بجائے اپنے عمل سے محبت اور رواداری کی طرف بلاتا ہے۔ صوفی حرص و ہوس سے بالاتر ہو کر کسی اجر کی طمع کے بغیر مخلوقِ خدا کی خدمت میں سربستہ رہتا ہے، اسی وجہ سے صوفی اس معراجِ انسانی تک پہنچ جاتا ہے جس کا ادراک دنیا داروں کو مشکل سے ہی ہوتا ہے۔

خادم حسین سومرو، چیئرمین سندھ صوفی انسٹیٹیوٹ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام صوبوں کی ثقافت صوفیاءکے دم سے رنگین و دلکش ہے اور انہی کے فیض سے صوبوں کے مابین ہم آہنگی اور خلوص کے جذبات کا فروغ ممکن ہوا ہے۔ مزید برآں گلوکارہ بشریٰ صادق نے صوفیانہ کلام پیش کر کے حاضرین سے بھرپور داد بھی وصول کی۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک محفلِ سماع کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے معروف قوال بدر میاں داد خان قوال کے صاحبزادے سکندر بدر میاں داد خان قوال نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور قوالی کے ذریعے صوفی شعراءکا کلام اس آہنگ سے پیش کیا کہ حاضرین تادیر سر دھنتے رہے۔

کانفرنس کے اختتام پر ادارے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغرا صدف نے شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ اس طرح کی تقاریب کے ذریعے مستقبل میں بھی تصوف اور عالمی امن کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا رہے گا۔

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پِلاک)، محکمہ اطلاعات و ..

انٹرنیشنل صوفی کانفرنس