کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا مو جب

توانائی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے کوئلے اور فوسل ایندھن کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کا مقصد سماجی فلاح کو بہتر بنانا نہیں بلکہ کارپوریٹ منافع کو بڑھانا ہے،تبدیلی آب و ہوا کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں میں سب سے زیادہ بوجھ زراعت پر پڑ رہا ہے،رپورٹ

پیر 14 مارچ 2016 16:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔14 مارچ۔2016ء) پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹس گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا باعث بنتے ہیں‘ پاکستان میں اراضی کے استعمال کی موزوں پالیسی اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد ضروری ہے تاکہ زرخیز زمین کو کئی طرح کے غلط استعمال سے محفوظ رکھا جا سکے۔ تبدیلی آب و ہوا کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں میں سب سے زیادہ بوجھ زراعت پر پڑ رہا ہے جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت‘ بالترتیب بارشوں اور انتہائی سردی اور گرمی کی لہروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ خطرات سے دو چار ہے ایک رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کو درپیش خطرات اس سے جڑے دوسرے شعبوں لائیو سٹاک اور ذرائع معاش پر اپنا اثر دکھاتے ہیں تو تبدیلی آب و ہوا کے اصل متاثرین مثلاً کوئلے کا استعمال ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں شدید تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کاربن کا اخراج کرنے پر کسی سمجھوتے کی راہ میں ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ درپیش ہے اس کام میں چین بھارت برازیل اور ایشین فیڈریشن جیسے ملکوں کی شرح افزائش پر سمجھوتہ نہ کرنا پڑے قابل تشویش بات یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار سستے خام تیل اور افرادی قوت کی تلاش میں ترقی پذیر ملکوں میں جا کر ڈیرے ڈالتے ہیں جہاں ماحولیاتی تحفظ کے قوانین ان پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کرتے یا برائے نام پابندیاں لگاتے ہیں توانائی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے کوئلے اور فوسل ایندھن کا استعمال بڑھتا چلا گیا ہے جن کا مقصد سماجی فلاح کو بہتر بنانا نہیں بلکہ کارپوریٹ منافع کو حتی الوسع حد تک بڑھانا مقصود ہے۔

(جاری ہے)

موسمی واقعات کے باعث زرعی پیداوار میں کمی خوراک کی عدم تحفظ غربت اور سماجی و سیاسی عدم استحکام کو پہلے سے بلند کر سکتی ہے مزید ترقی پذیر ملکوں کی آبادی میں اضافہ 2 فیصد اوسطاً سالانہ ہے درجہ حرارت میں اضافہ اور آبپاشی کے لئے پانی کی دستیابی میں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتی ہے جس کے باعث خوراک کی دستیابی پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں 2010-11ء میں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے سے مزید 44 ملین کے لئے یہ خطرہ مزید بڑھ گیا شدید موسم اور آب و ہوا سے پاکستانی زراعت قریب المرگ ہو جاتی ہے اور لائیو سٹاک کی پیدوار برائے نام رہ جاتی ہے۔

اور یوں جلتی پر تیل کا کام دیا ہے۔ طرز زندگی ڈھالنے کے ایسے نظام جن میں فالتو صنعتی مواد سے نمٹنے کے اقدامات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو‘ تشکیل دینا ان چند شعبوں میں شامل ہے جنہیں اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے پاکستان میں اراضی کے استعامل کی موزون پالیسی اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد بھی ضروری ہے تاکہ زرخیز زمین کو کئی طرح کے غلط استعمال سے محفوظ رکھا جا سکے جس میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لئے اراضی کے استعمال بھی شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی ڈھانچے پر موثر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

اینٹوں کے بھٹوں‘ فضلاتی مواد‘ تازہ پانی کے ذخائر میں پھینکنے اور صحت سے متعلق دیگر خطرات کے خلاف ایڈووکیسی کی ضرورت ہے یہ تبھی ممکن ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے قانونی ڈھانچے کو کمیونیٹیز کی بدلتی ضروریات سے زیادہ ہم آہنگ بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :