تحفظ حقوق نسواں ایکٹ خلاف اسلام نہیں‘ قانون مزیدموثر بنانے کے لئے تجاویز دیں گے‘ علماء

حکومت پنجاب کی طرف سے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو تحفظ نسواں قانون کی مختلف شقوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی کچھ عناصر سیاسی مفادات کے حصول کے لئے ایکٹ کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں‘ قانون کے حوالے سے علمائے کرام سے مشاورت وزیراعلیٰ کا صائب فیصلہ ہے‘طاہراشرفی

ہفتہ 12 مارچ 2016 22:55

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 مارچ۔2016ء) مشیر وزیراعلیٰ پنجاب خواجہ احمد حسان کی زیرصدارت یہاں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے معروف علمائے کرام کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومت پنجاب کی طرف سے منظور کئے جانے والے تحفظ نسواں ایکٹ 2016ء کے حوالے سے علمائے کرام کو جامع بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ سلمان صوفی نے ایکٹ کے نمایاں پہلوؤں اور اس کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

اجلاس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 15سے زیادہ مذہبی سکالرز شریک ہوئے۔ جن میں حافظ محمد طاہر اشرفی‘ صاحبزادہ سعید احمد گجراتی‘ ڈاکٹر راغب نعیمی‘ علامہ عارف وحیدی‘ حافظ کاظم رضا‘ صاحبزادہ زاہد محمودقاسمی‘ مولانا محمد خان‘ مولانا یوسف انور‘ چیئرمین علما بورڈ مولانا فضل الرحمن‘ حافظ زبیر‘ مولانا عبدالحق‘ مولانا محمد امجد‘ پیر محفوظ اور مفتی عبدالقوی شامل تھے۔

(جاری ہے)

اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر صاحبزادہ زاہدمحمود قاسمی نے اس موقع پر کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے بل کا مطالعہ کئے بغیر ہی اس پر اپنی رائے دے دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک فرد کی رائے پوری اسلامی نظریاتی کونسل کا نکتہ نظر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے درخواست کی ہے کہ وہ بل کے بارے میں کوئی فیصلہ دینے سے پہلے کونسل کا اجلاس بلا کر تمام ممبران سے اس بارے میں مشورہ لیں۔

اجلاس میں حکام کی طرف سے بل کے بارے میں پھیلائی گئی تین بڑی غلط فہمیوں کی وضاحت کی گئی۔سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ سلمان صوفی نے کہا کہ مذکورہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب خاوند کو ٹریکنگ کڑا پہنا کر اس کی تمام حرکات مانیٹر کرنے کے حوالے سے غلط تاثر پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کڑا پہنانے کی سزا صرف گھریلو تشدد کے کیسوں میں دی جا سکتی ہے اور اس کا تعلق صرف سنگین قسم کے مجرمانہ افعال مثلاً جنسی زیادتی‘ اقدام قتل ‘ کیس واپس لینے کے لئے ڈرانے دھمکانے اور تیزاب پھینکنے کی کوشش وغیرہ جیسے کیسز‘ جن میں عدالت کو یقین ہو کہ متاثرہ خاتون کی زندگی خطرے میں ہے کے زمرے میں آتا ہے۔

جہاں تک خاوند کو 48گھنٹوں کے لئے گھر سے نکال دینے اور گھریلوناچاقی کو مزید بڑھانے کے حوالے سے پیدا کی گئی غلط فہمی کا تعلق ہے سلمان صوفی نے کہا کہ مذکورہ قانون کے مطابق خاوند کو48گھنٹوں کے لئے گھر سے باہر نکالنا زیادہ سے زیادہ مدت ہے اور یہ وقت میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاوند کے گھر سے باہر رہنے کا وقت چند گھنٹوں تک بھی محدود ہو سکتاہے جس کا انحصارضلعی تحفظ نسواں کمیٹی کی سفارش پر ہو گا۔

سلمان صوفی نے خاندان میں خاوند‘ بھائیوں اور دوسرے مرد ارکان کی طرف سے گھر کی خواتین کو روک ٹوک کی اجازت ختم ہونے کے حوالے سے موجود غلط تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تحفظ نسواں ایکٹ میں ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے اور باپ یا خاوند کی طرف سے بیٹی یا بیوی سے کئے جانے والے استفسار کو نفسیاتی تشدد قرار نہیں دیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء علمائے کرام نے اس امر پر اتفاق کا اظہار کیا کہ مذکورہ ایکٹ خلاف شریعت یا خلاف اسلام نہیں ہے تاہم انہوں نے مذکورہ قانون کو اسلامی قوانین کی روشنی میں مزیدموثر بنانے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے کچھ تجاویز پیش کیں جو وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی جائیں گی۔

کمیٹی کے ارکان نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اسلام خواتین پر تشدد کے خلاف ہے اور کچھ عناصر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے مذکورہ ایکٹ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ قطعاً غیراسلامی قانون نہیں ہے۔ علمائے کرام نے کہا کہ تحفظ نسواں ایکٹ کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ علمائے کرام اصلاحات کے خلاف ہیں جو درست نہیں ہے۔

اسلام تشدد کے خلاف ہے اور علمائے کرام خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف اٹھائے گئے ہر اقدام کا ساتھ دیتے ہوئے مذکورہ قانون غیرموثر بنانے کی بجائے زیادہ جامع بنانے کیلئے ٹھوس تجاویز پیش کریں گے۔ مولانا طاہر محموداشرفی نے کہا کہ بعض عناصر سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اس ایکٹ کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایکٹ پر گفتگو کے لئے علمائے کرام کا اجلاس بلا کر صائب فیصلہ کیا ہے۔

مولانا طاہرمحموداشرفی‘ مفتی عبدالقوی اور مولانا راغب نعیمی نے تجویز پیش کی کہ پنجاب کے مذہبی سکالرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو حکومت کو تحفظ نسواں ایکٹ کو موثرتر بنانے کی تیاری میں معاونت فراہم کرے۔سلمان صوفی نے کہا کہ مجوزہ کمیٹی کی تشکیل کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ سلمان صوفی نے مزید کہا کہ حکومت پنجاب علمائے کرام کی طرف سے خواتین پر تشدد کی روک تھام کے عزم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور تحفظ نسواں بل کو مزیدبہتر بنانے کے لئے ان کی طرف سے پیش کی گئی تمام مثبت اصلاحات کاخیرمقدم کرتی ہے۔

خواجہ احمدحسان نے اس موقع پر کہا کہ معاشرے سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے مذہبی سکالرز کا حکومت کے ساتھ تعاون اہل وطن کے لئے بڑا خوش آئند ہے اور آج کی اس نشست سے ثابت ہوتا ہے کہ تحفظ نسواں بل کے خلاف پراپیگنڈا بے بنیاد ہے اور علمائے کرام قانون کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

متعلقہ عنوان :