پنجاب اسمبلی کا منظور کر دہ حقوقِ نسواں بل بظاہر گھریلو تشدد سے بچاؤ کا قدم ہے، اس کے دور رس اثرات مر تب ہو ں گے،جماعت اسلامی سندھ (حلقہ خواتین )

بل پر عمل در آمد گھروں کے ٹوٹنے اور خاندان کے بکھرنے کا باعث ہو گا، معاشر ے میں مرد بھی مظلوم ہوں عورت کو کیسے تحفظ مل سکتا ہے اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے، ناظمہ عطیہ نثار کا سیمینار سے خطاب

جمعہ 11 مارچ 2016 22:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 مارچ۔2016ء) جماعت اسلامی سندھ (حلقہ خواتین ) کی ناظمہ عطیہ نثار نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا منظور کر دہ حقوقِ نسواں بل بظاہر گھریلو تشدد سے بچاؤ کا ایک قدم ہے لیکن اس کے دور رس اثرات مر تب ہو ں گے اور اس بل پر عمل در آمد گھروں کے ٹوٹنے اور خاندان کے بکھرنے کا باعث ہو گا ۔جس معاشر ے میں مرد بھی مظلوم ہوں عورت کو کیسے تحفظ مل سکتا ہے ۔

اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے ۔عورت پر تشدد یقیناً قابل ِ مذمت ہے لیکن بل کسی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ان خیالات اظہار انہوں نے ادارہ نور حق میں حلقہ خواتین کے تحت ”حقوق ِ نسواں بل حقائق اور مضمرات “ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

سیمینار سے سابق رکن قومی اسمبلی عائشہ منور ،ویمن اینڈ فیملی کمیشن سندھ کی افشاں نوید ،ناظمہ کراچی فر حانہ اورنگزیب ،معروف قانون داں روبینہ جتوئی ایڈوکیٹ ،تحریک انصاف لیبر ونگ کی جنرل سیکریٹری حنا سحر ،معروف کالم نگار اور ادیبہ حمیرا خالد ،معروف وکیل شازیہ ملک ایڈوکیٹ ،کراچی یونیورسٹی کی لیکچر ر خالدہ حبیب ،ورکنگ ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن کی نائب صدر ریحانہ افروز اور دیگر نے خطا ب کیا ۔

سیمینار میں مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ خواتین نے شر کت کی ۔عطیہ نثار نے کہا کہ پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں یہ بل بلا ضرورت ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر عمل در آمد کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر مساواتِ مرد وزن اور آزادانہ اختلاط کے نتیجے میں خاندان تباہ اور گھر بکھر نے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا ۔

عائشہ منور نے کہا کہ اس بل کی دفعہ نمبر 10,11,23اور دفعہ 24پر عمل کے نتیجے میں خونی رشتے اور تعلقات گھروں سے باہر زیر بحث آنے سے،عدالت اور این جی اوز کے پلیٹ فارم تک پہنچنے کے بعد حالات میں بہتری کے بجائے بگاڑ اور فساد پیدا ہو گا ۔یہ قوانین فطرت کے بھی خلاف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ عورت کی کارکردگی کردار کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے ایسے اقدامات کر نے کی ضرورت ہے کہ معاشی مسائل کا شکار عورت آسانی سے اپنے گھر کی کفالت کر سکے ۔

ورکنگ ویمن کے لیے اس کی نوکری کی جگہ کے قریب چائلڈ کئیر سینٹرز کے قیام کو یقینی بنا یا جائے ۔افشاں نوید نے کہا کہ اسلامی احکامات رشتوں اور تعلقات کو جوڑ نے اور مضبوط کر نے کے لیے ہیں ۔پاکستان کے اندر ایک سازش کے تحت منفی پہلوؤں کو نمایاں کیا جاتا ہے ۔2015ء میں تھر پار کر میں بھوک اور بد حالی کے باعث جتنے بچے موت کا شکار ہوئے ہیں ۔کاروکاری اور تیزاب پھیکنے کے واقعات اس کا دس فیصد بھی نہیں ہیں ۔

فر حانہ اورنگزیب نے کہا کہ خاندانی نظام اور اس کا استحکام بہت بڑی نعمت ہے ۔عورت ہر لحاظ سے اسلامی دائر ے اور حصار میں ہی محفوظ اور آزاد ہے اور مرد کو اس کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے ۔یہ بل خاندان کو توڑ نے کی کوشش ہے ۔قرآن سے شادی ،کاروکاری اور دیگر جاہلانہ رسومات صرف اور صرف اسلام سے دوری کی وجہ ہیں ۔عورت اور مرد دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو سدھا ریں ۔

جماعت اسلامی بہت جلد متبادل بل پیش کر ے گی ۔روبینہ جتوئی ایڈوکیٹ نے کہا کہ مرد کو پابند کیا جائے کہ وہ عورت اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری پوری طر ح سے ادا کر ے ۔قوانین کی تشکیل اور نفاذ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ان کے نتائج کو بھی نظر میں رکھنا چاہیئے ۔جب فیملی کا معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے تو بات کافی آگے تک چلی جاتی ہے اور اس میں سب سے زیادہ مسائل کا شکا ر بچے ہو تے ہیں ۔

حنا سحر نے کہا کہ مادر پدر آزادی نہ ہمارے مذہب نے دی ہے اور نہ آئین ِ پاکستان اس کی اجازت دیتا ہے ۔ہمیں افراط و تفریط سے گریز کر نا چاہیئے ۔خواتین کو عزت اور مقام اسلام نے عطا کیا ہے وہ کسی اور نے نہیں دیا ہے ۔شازیہ ملک ایڈوکیٹ نے کہا کہ عورت کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرے اور گھر دونوں کا بوجھ اُ ٹھائے ۔ اس کی تنخواہیں بھی مردوں سے کم ہو تی ہیں ۔

اسلامی احکامات فطرت سے قریب تر ہیں ۔طلاق کی شرح میں اضافے کا اسباب پر بھی ہم سب کو غور کر نا ہو گا ۔مفاہمت اور برداشت کی کمی تباہی کا سبب ہے ۔ریحانہ افروز نے کہا کہ اسلام دین ِ فطر ت ہے اس نے بلا تفریق جنس تمام انسانوں سے حقوق کا پورا خیال رکھا ہے ۔پاکستان کے آئین کے مطابق یہ امر لازمی ہے کہ یہاں قانون سازی قرآن و سنت کے تابع رہے ۔ #