نصابی کتب میں لفظ بلوچ کی غلط تعریف سے پوری قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، راجہ ظفر الحق

سابق آمر ضیاء الحق کے دور میں نصاب دوبارہ لکھا گیا، آج نصاب میں جمہوریت اور آمریت کے فائدے پڑھائے جاتے ہیں، نصاب میں جمہوری تحریکوں کا ذکر ہی نہیں،چیئرمین سینیٹ، مسلمانوں کو مختلف کتابوں میں ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سینیٹر مشاہداﷲ،کہ بلوچ قوم کی غلط تعریف سے ہماری تذلیل کی جا رہی ہے،ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے ،سینیٹ سینیٹ میں سینیٹر میر کبیرکا نکتہ اعتراض پر عوامی اہمیت پر مبنی مسائل کے حوالے سے اظہار خیال

جمعہ 11 مارچ 2016 19:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 مارچ۔2016ء) سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ٹیکسٹ بک میں لفظ بلوچ کی غلط تعریف سے پوری قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ سابق آمر ضیاء الحق کے دور میں نصاب دوبارہ لکھا گیا، آج نصاب میں جمہوریت اور آمریت کے فائدے پڑھائے جاتے ہیں، جہاں جمہوریت کے 8اور آمریت کے 12فائدے پڑھائے جاتے ہیں، نصاب میں جمہوری تحریکوں کا ذکر ہی نہیں، سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ مسلمانوں کو مختلف کتابوں میں ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچ قوم کی غلط تعریف سے ہماری تذلیل کی جا رہی ہے، اس کتاب کے مصنف سمیت ہماری تذلیل کی جا رہی ہے، اس کتاب کے مصنف سمیت نصاب کی تصدیق کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں اراکین نے نکتہ اعتراض پر عوامی اہمیت پر مبنی مسائل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر سینیٹر میر کبیر نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بارہویں جماعت کی عمرانیات کی کتاب جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہے کہ بلوچ شہری نہیں بلکہ دیہاتی لوگ ہیں اور وہ قافلوں کو لوٹتے ہیں، بلوچ قوم کو ذلیل کیا گیا ہے اور اس مصنف کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس بات کو منطقی انجام کو پہنچایا جانا چاہیے اور پوری قوم کی پیٹھ پر چھرا گھونپا گیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ ملک میں انتشار کی فضا پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بات سوچنی ہے کہ ہمارے بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، جن لوگوں نے یہ باتیں لکھی ہیں، ان کے خلاف اور نصاب کا نظام چلانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ نصاب دوبارہ جنرل(ر) ضیاء الحق کے دور میں لکھا گیا ہے، آج جو نصاب بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے کہ آمریت اور جمہوریت کے فائدے پڑھائے جا رہے ہیں کہ آمریت کے 12فائدے اور جمہوریت کے 8فائدے ہیں، جمہوری تحریکوں کا ذکر نہیں ہے اور آمروں نے جو قدم اٹھائے ہیں وہ درست تھے۔ سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ مسلمانوں کو مختلف کتابوں میں ولن بنا کر دیکھا جا رہا ہے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مارچ اور اپریل میں وفاقی دارالحکومت میں پولن الرجی شروع ہو جاتی ہے اس حوالے سے جس درخت سے یہ پولن الرجی ہوتی ہے اس کو تلف کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں، الرجی سے متاثرہ مریضوں کو سہولیات دی جائیں۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارت روانگی نہیں ہو رہی۔ سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ جڑواں شہروں میں ٹرانسپورٹ کا اہم مسئلہ ہے، جو سلوک خواتین اور عمر رسیدہ افراد کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے وہ قابل مذمت ہے جو تذلیل لوگوں کی ہوتی ہے اس کا تدارک کیا جائے۔

سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں لاکھوں بچیاں تعلیم سے محروم ہیں، بچیوں کی تعلیم سے معاشرتی تضاد میں کمی آ سکتی ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کچھ ایسے لوگوں نے ہمیشہ بہت کچھ لکھا، وزیر داخلہ نے شہباز تاثیر کے حوالے سے اس ایوان میں غلط بیانی سے کام لیا، وزیر داخلہ کو اپنے اداروں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، کچلاک کوئٹہ کا حصہ ہے اور وہاں آرام سے ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا اور ڈیل کے نتیجے میں رہائی ہوئی۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ، لوگوں کو روزگار کی فراہمی سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں، برآمدات کی کمی کی وجہ سے انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں، بنگلہ دیش کی برآمدات 30فیصد ہے اور پاکستان کی 14فیصد ہیں، وہاں ایک رواداری والا معاشرہ موجود ہیں وہ ہم سے بہتر ہو گئے ہیں۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ 11مارچ کا دن چیئرمین سینیٹ کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ چیئرمین نے سینیٹ میں نئی اصلاحات کیں اور ایک سال میں پورے ایوان کی کمیٹی نے مختلف پہلوؤں پر کئی معاملات پر بحث کرتے ہوئے سفارشات مرتب کیں۔

متعلقہ عنوان :