سانحہ ماڈل ٹاؤن،انسداد دہشتگردی عدالت میں سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہوررانا عبدالجبار ، ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز اوراسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاؤن طارق چانڈیو کے بیانات قلمبند ، ڈی سی او لاہور کو بیان قلمبند کرنے کیلئے آج طلب کر لیاگیا

جمعرات 10 مارچ 2016 22:03

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 مارچ۔2016ء) انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں سانحہ کے مرکزی کردار سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہوررانا عبدالجبار ، ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز اوراسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاؤن طارق چانڈیو کے بیانات قلمبند کرتے ہوئے سماعت آج جمعہ تک کیلئے ملتوی کر دی ۔

عدالت نے ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان کو بیان قلمبند کروانے کے لئے طلب کر لیا۔ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج خواجہ ظفر اقبال نے مقدمے کی سماعت کی۔ جیل حکام کی جانب سے سابق ایس ایچ او سبزہ زارعامر سلیم سمیت دیگر گرفتار پولیس اہلکاروں کو عدالت کے روبرو پیش کیاگیا۔ رانا عبد الجبار نے سانحے سے متعلق بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ 16جون 2014کو رات ساڑھے دس بجے وہ پولیس لائینز قلعہ گجر سنگھ میں موجود تھے کہ ڈی سی او لاہور نے کال کر کے انہیں منہاج القرآن کے باہر سے تجاوزات اور رکاوٹیں ختم کرانے کے لئے معاونت کا کہا جس پر انہوں نے ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز کو نفری کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن جانے اور معاونت کا حکم دیا۔

(جاری ہے)

جس کے بعد وہ جی او آر میں واقع اپنے گھر جا کر سو گئے ۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ رات پونے تین بجے ایس پی ماڈل ٹاؤن نے انہیں فون کر کے بتایا کہ عوامی تحریک کے کارکن ضلعی انتظامیہ کے کام میں مزاحمت کر رہے ہیں اور سڑکیں بلاک کر رہے ہیں ۔ جس پر انہوں نے ایس پی کو مظاہرین اور ان کی قیادت سے مذاکرات کرنے کا کہنا ۔ تاہم صبح سات بجے آپریٹر نے انہیں بتایا کہ مشتعل کارکنوں نے شاہدرہ کے قریب جی ٹی روذ ، قینچی امر سدھو اور میٹرو بس سٹیشن فیروز پور روڈ کو بلاک کر دیا ہے ۔

اور ایس پی ماڈل ٹاؤن نے صورتحال کے بارے میں بتایا کہ منہاج القرآن سے لاؤڈ سپیکرز پر کارکنوں کو جمع کرنے کے لئے اعلانات کئے جا رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں کارکن مسلح اسلحہ ، پٹرول بم ، ڈنڈوں اور اینٹوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں اکھٹے ہو رہے ہیں ۔ اور اب تک ان کے حملوں کے نتیجے میں چھ پولیس کے جوان زخمی بھی ہو چکے ہیں ۔ جس پر انہوں نے مزید چھ ریزرو فورسز کے علاوہ ایس پی سول لائینز عمر ریاض اور ایس پی سکیورٹی سلمان علی خان کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی۔

جبکہ میں خود پونے نو بجے موقع پر پہنچا ۔سابق ڈی آئی جی رانا عبدالجبار کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے منہاج القرآن کی انتظامیہ سے مذاکرا ت کئے جو کہ ناکام ہو گئے اور اسی دوران مسلح مشتعل کارکنوں نے پولیس پر حملہ کر دیا ۔اور اسی دوران کاکنوں نے وہاں واقع ٹی ایم اے سٹور کا سامان لوٹ لیا گیا اور آگ بھی لگا دی جبکہ پولیس فورس کو پرغمال بنا لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ان کے لئے ضروری تھا کہ مزید نفری منگوا کر پولیس کو بازیاب کروایا جائے اور انہوں نے ایس ہیڈ کوارٹر معروف واہلہ ، ایس پی صدر ملک اویس ، ایس پی اقبال ٹاؤن ڈاکٹر فرخ ، ایس پی موبائیلز عبدالرحیم شیرازی اور اپنے ایس ایچ اوز اور نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچنے کا حکم دیا ۔ جونہی پولیس کی مزید نفری وہاں پہنچی اور اپنے ساتھیوں کو بازیاب کروانے کے لئے آگے بڑھی تو عوامی تحریک کے کارکنوں نے چھتوں اور اطراف سے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں پولیس کے علاوہ عوامی تحریک کے اپنے کارکن بھی فائرنگ کی زد میں آگئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس پر حملے اور اغواء میں ملوث عوامی تحریک کے 52کارکن موقع سے گرفتار کئے گئے اور ان کے قبضے سے دو ایس ایم جی رائفلز اور تین پسٹل بھی برآمد کئے گئے ۔ تاہم ساڑھے بارہ بجے کے قریب مظاہرین کے منتشر ہونے پر پو لیس کو واپسی کا حکم دیا اور ضلعی انتظامیہ نے وہاں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مجموعی طور پرقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دئیے اور مظاہرین سے بار بار مذاکرات کئے ۔ عدالت نے تینوں گواہان کے بیانات قلمبند کرتے ہوئے سماعت آج جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے ڈی سی او لاہور کو بیان قلمبند کرنے کے لئے طلب کر لیا ۔

متعلقہ عنوان :