جب تک بھارتی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی گارنٹی نہ آ ئے قومی ٹیم کو بھارت کھیلنے نہیں بھیجا جا سکتا ٗ وزیر داخلہ

صرف الزامات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کیخلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی، سرفراز مرچنٹ کے الزامات بارے قائم کر دہ کمیٹی کو مصطفی کمال سمیت ہر پاکستانی شہری ثبوت ٗ دستاویزات پندرہ روز کے اندر فراہم کرسکتا ہے ٗ چوہدری نثار

جمعرات 10 مارچ 2016 20:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 مارچ۔2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سرفراز مرچنٹ کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم ہوچکی ہے ٗ مصطفی کمال سمیت ہر پاکستانی شہری ثبوت ٗ دستاویزات پندرہ روز کے اندر فراہم کرسکتا ہے ٗ کمیٹی کے پاس حقائق ہونگے تو معاملہ آگے بڑھے گا اور پھر قانونی ان پٹ کی روشنی میں جو ڈیشل کمیشن بھی بنایا جائیگا ٗسرفراز مرچنٹ پاکستانی شہری ہیں ٗملک کے مفاد میں پاکستان آ کر کمیٹی کو بیان دینا چاہئے ٗانکار کیا تو پھر برطانوی حکومت سے رسائی کیلئے استدعا کرنی پڑیگی، میرے ایم کیو ایم سے سیاسی طور پر اچھے تعلقات نہ ہوں ٗاﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انصاف سب کے سامنے ہونا چاہیے ٗ جب تک بھارتی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی گارنٹی نہ آ ئے قومی ٹیم کو بھارت کھیلنے نہیں بھیجا جا سکتا ٗایڈن گاڈرن میں پاکستانی کھلاڑیوں پر کوئی بوتل یا پتھر برسائے گئے تو کھلاڑی خوف کے سائے میں اپنا سو فیصد کھیل کس طرح پیش کریں گے؟۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پنجاب ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ گزشتہ چند روز میں میں نے ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سی کانفرنسوں کا شوروغل سنا ہے ۔میں نے گزشتہ پریس کانفرنس میں سرفراز مرچنٹ کے بیان کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا اس پر عملدر آمد شروع ہو چکا ہے سرفراز مرچنٹ کے انٹرویوکی روشنی میں منی لانڈرنگ ٗ دیگر جرائم اور را سے متعلق الزامات کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کی کمیٹی بنادی گئی اس کمیٹی نے سرفراز مرچنٹ کو بھی تفتیش کیلئے بلایا ہے اور انہیں سمن جاری کیا ہے وزیر داخلہ نے کہاکہ سرفراز مرچنٹ کی سہولت کے مطابق تینوں ایشوز پر بات چیت کی جائیگی یہ صرف سرفراز مرچنٹ کے بیان پر نہیں ٗ منی لانڈرنگ ٗرا اور جرائم کے حوالے سے اگر کسی بھی شہری کے پاس کوئی ثبوت ٗ دستاویزات یا شواہد ہیں تو وہ کمیٹی کو دیں ۔

کمیٹی سے متعلق اخبارات میں اشتہارات دے دیئے گئے ہیں پاکستان کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومت سندھ کو بھی خط لکھا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی اطلاع ہے ٗ یا سابق جے آئی ٹی ان کا کوئی ریکارڈ ہے تو وہ کمیٹی سے شیئر کرے ۔یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ اتنے سنجیدہ کیسز ہوا میں نہیں بنتے ٗ میڈیا ٹرائل بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں جلسوں اور بیانات سے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ آزاد میڈیا کا جمہوری نظام کو بہت فائدہ ہے لیکن شام کو میڈیا پر کچھ لوگ اتنے چھکے لگاتے ہیں کہ اصل مفہوم دب کر رہ جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایگزٹ یا کسی اور معاملے پر کمیٹی نہیں بنی بہت سے معاملات پر کمیٹیاں بنی ہیں حقائق اور سچائی کو سامنے آنے دیں بڑے بڑے دانشور جو منہ میں آتا ہے میڈیا پر آ کر کہہ دیتے ہیں کہ ان کو کچھ پتہ نہیں یہ کر دو وہ کر دو ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ کیا ایک سیاسی جماعت جس کی واضح حمایت موجود ہے اس پر کسی نوٹیفکیشن کے ذریعے پابندی لگائی جا سکتی ہے اس کو وطن دشمن قرار دیا جا سکتا ہے تمام امور کیلئے قانونی طور پر شواہد اور حقائق ہونا ضروری ہیں ۔ ہر روز سیاسی بیان پر کمیشن یا کمیٹی نہیں بن سکتی ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مصطفیٰ کمال سمیت سب لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس کمیٹی میں اپنا بیان دیں منی لانڈرنگ کیس لندن میں چل رہا ہے اس کے الزام بھی جن لوگوں پر ہیں وہ لندن میں اور گواہان بھی لندن میں ہیں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایک نوٹیفیکیشن ہو اور ان کا مقصد پورا ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہو گا قانون انصاف کے مطابق آگے بڑھے گا میرے ایم کیو ایم سے سیاسی طور پر اچھے تعلقات نہ ہوں لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو یہی اﷲ تعالی کا حکم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت چیختے چلاتے کیوں نہیں تھے جب 10 سال تک انک حکومت تھی ایم کیو ایم حکومت میں تھی مصطفیٰ کمال 12 مئی کو بھی ایم کیو ایم میں تھے آج جو بہت بڑے تجزیہ نگار بنے بیٹھے ہیں وہ اس وقت کیوں خاموش تھے ۔ عمران فاروق قتل کیس کو بھی اسی حکومت نے آ کر اٹھایا۔ منی لانڈرنگ کیس سے متعلق کیس بھی ہم کام شروع کر رہے ہیں ۔ ہم نے برطانیہ سے معلومات شیئر کیں برطانوی حکومت معلومات کے حوالے سے ہم سے پیچھے ہے اگر ایف آئی اے کی کمیٹی کے پاس حقائق ہونگے تو معاملہ آگے چلے گا کسی جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے بھی حقائق ہونا ضروری ہیں اگر کمیٹی میں قانونی ان پٹ آئی تو جوڈیشل کمیشن بنائیں گے ۔

سیاسی بیانات سے جوڈیشل کمیشن فیصلہ نہیں کریگا وہ حقائق پر فیصلہ کرے گا وزیر داخلہ نے کہا کہ سرفراز مرچنٹ کے نکات سنجیدہ تھے جو انہوں نے میڈیا پر آ کر دیئے سرفراز مرچنٹ پاکستانی شہری ہیں انہیں پاکستان کے مفادات میں پاکستان آ کر تفتیش میں شامل ہونا چاہئے اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر ہمیں برطانوی حکومت سے استدعا کرنی پڑی گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایف آئی اے کی کمیٹی کو 2 ہفتے دیئے گئے ہیں اس کے بعد ساری چیزیں پبلک کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ تمام الزامات کے ملزمان برطانیہ میں ہیں پیسہ پاکستان نہیں آیا بلکہ لندن گیا ہے ایف آئی اے نے فیصلہ کیا کہ تفتیش آگے بڑھائی جائے تو پھر حکومت برطانیہ کے ساتھ ہم معاملہ اٹھائیں گے اور ان سے استدعا کریں گے کہ سرفراز مرچنٹ اور دیگر جن لوگوں پر الزامات ہیں ان تک رسائی دی جائے ۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے ساتھ بھی انٹریکشن کریں گے یہ سنجیدہ الزامات ہیں جو عدالتی کارروائی کے ذریعے منتطقی انجام تک پہنچ سکتے ہیں ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ان نام نہاد دانشوروں کی بات پر کان نہ دھریں جو ہر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ سرفراز مرچنٹ سے ایف آئی اے کا ان ڈائریکٹ رابطہ ہوا ہے جس کے جواب میں سرفراز مرچنٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے وکلاء سے مشورے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ وہ پاکستان آئیں گے یا نہیں اور انہیں کب آنا ہے اگر وہ پاکستان نہیں آتے تو ہماری ٹیم برطانیہ جا کر سرفراز مرچنٹ کا بیان لینے کیلئے تیار ہے اس کیلئے ہمییں حکومت برطانیہ سے اجازت لینا ہو گی ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ بھارت میں ورلڈ کپ ہورہا ہے اور ہماری ٹیم چمپیئن رہ چکی ہے جس کی بنیاد پر ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی تو وہاں سے میڈیا اور دیگر ذرائع سے غلط رنگ دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ افسوس کے ساتھ یہ اعلان کرنا پڑرہا ہے کہ جب تک حکومتی سطح پر کوئی سیکیورٹی کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی، ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔

چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت جائے ٗجو سیکورٹی تھریٹس اور دھمکیاں ہیں وہ خصوصاً پاکستان سے متعلق ہیں۔وزیر داخلہ نے کہاکہ بھارت پاکستان کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتا، مختلف بہانے اس کے شواہد ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ بی سی سی آئی اور آئی سی سی کا رویہ اس معاملے پر مثبت ہے لیکن بھارتی میڈ یا کے ذریعے دھمکیاں اور بد زبانی کی جارہی ہے اور یہ دھمکیاں کسی اور ملک کیلئے نہیں بلکہ صرف پاکستان کے حوالے سے دی جا رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آئی سی سی نے ہمارا پہلا مطالبہ مان لیا اور میچ کا وینیو تبد یل کر کے دھرم شالا سے کلکتہ منتقل کردیا گیا اور ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو جو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس حوالے سے بھارتی حکومت کے ذمہ داران سیکیورٹی گارنٹی دیں ۔چوہدری نثار نے کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم بھارت جا کر کھیلے لیکن دھمکیوں ،الزامات اور بد عنوانی کے سائے میں ٹیم کو بھارت نہیں بھیجا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایڈن گاڈرن میں پاکستانی کھلاڑیوں پر کوئی بوتل یا پتھر برسائے گئے تو کھلاڑی خوف کے سائے میں اپنا سو فیصد کھیل کس طرح پیش کریں گے۔