پاک چین سول ایٹمی تعاون توانائی بحران کے خاتمے کیلئے ہے

چین توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے پاکستان کی مدد کررہا ہے ، چائنا ڈیلی کی رپورٹ بھارت سفارتی ذرائع سے پاک چین ایٹمی معاہدے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے ،چشمہ ایٹمی پاور پلانٹ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے دائرہ کار میں شرو ع کیا گیا ہے ، چینی وزارت خارجہ

جمعرات 10 مارچ 2016 20:24

پاک چین سول ایٹمی تعاون توانائی بحران کے خاتمے کیلئے ہے

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 مارچ۔2016ء) چین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سول ایٹمی شعبے میں تعاون کے خلاف بعض عناصر بے بنیاد پراپیگنڈ ہ کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں توانائی بحران کے خاتمے کے لئے چین اپنا تعاون جاری رکھے گا، چشمہ ایٹمی پاور پلانٹ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے دائرہ کار میں رہ کر شرو ع کیا گیا ہے ، امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاہدے کو نظر انداز کر کے چین پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کر دے ۔

یہ بات چین کے معروف اخبار ڈیلی چائنہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق چین کے معروف سکالر اور پیکنگ یونیورسٹی سکول آف انٹر نیشنل سٹیڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسرنے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ چین پر امن ایٹمی توانائی پروگرام ہر آزمائش پر پورا ترنے والے دوسست ملک پاکستان کو درپیش توانائی بحران کے خاتمے میں مدد کے لئے ہے ۔

(جاری ہے)

بعض مفاد پر ست عناصر بے بنیاد تنقید اور الزام تراشی کر رہے ہیں جو حقائق کے منافی ہے ۔ اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق چین اور پاکستان کے درمیان تعاون پر امن ایٹمی توانائی کے سلسلے میں جاری ہے جو کہ عالمی قوانین کے تحت پر امن مقاصد کیلئے ہے اور یہ پروگرام انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی نگرانی میں کام کررہا ہے ۔بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور وہ سفارتی ذرائع سے چین اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے کو روکنے کی کوشش کررہا ہے حالانکہ اس نے 2006ء میں امریکہ کے ساتھ ایسے ہی معاہدے پر دستخط کررکھے ہیں ۔

چائنہ ڈیلی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چین کے بہت سے مخالفین امریکہ میں یہ الزام لگاتے ہیں پاکستان کے چشمہ 3اور 4 نیوکلیئر سپلائر گروپ( این ایس جی) کے رہنما اصولوں کو نظر انداز کررہے ہیں جو ایٹمی طاقتوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی اور مواد غیر ایٹمی ملکوں کو برآمد کرنے سے روکتے ہیں چونکہ پاکستان نے بھی این پی ٹی پر ابھی تک دستخط نہیں کئے اور نہ ہی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اصولوں کو اختیار کیا ہے اس لئے اس کو ایٹمی تعاون فراہم نہیں کیا جا سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ چین نے جب سے این ایس جی میں 2004ء سے شمولیت اختیار کی ہے اس کے نقاد مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور اس کے قوانین کی پوری پابند ی کرے اور کیونکہ چشمہ 3 اور 4 پر 2004ء کے بعد دستخط کئے گئے ہیں اس لئے وہ این ایس جی سے منظور شدہ ہونے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے ایک اہم رکن آشلے ٹیلس نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ایٹمی معاہدہ کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اور انہوں نے چین پاکستان اور بھارت امریکہ معاہدے کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ موخر الذکر معاہدے پر نہ تو واشنگٹن میں اور نہ ہی این ایس جی میں بحث کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو تو اسی وقت نظر انداز کر دیا گیا تھا جب بھارت کو جو این پی ٹی ،این ایس جی اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں سے باہر ہے کو مستثنیٰ قرار دیکر بھارت امریکہ معاہدے پر دستخط کر دئیے گئے ۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کو بجلی کے بحران کا سامنا ہے جس سے اس کی معیشت مشکلات کا شکارہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان کو 3668میگاواٹ یومیہ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے اور پاکستان کے سامنے اس بحران پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی صنعت کو ایٹمی توانائی فراہم کرے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں سماجی بد امنی اور انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ، اس وقت پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات کا صرف 2.34فیصد ایٹمی ذرئع سے حاصل کررہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ ہے جو با لواسطہ یا براہ راست چین پر کئی مہینوں سے تنقید کررہا ہے خصوصاً ان معاملات جن میں چین اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی سکول آف انٹر نیشنل سٹیڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی جانب سے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین کی نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن نے فروری میں اعلان کیا تھا کہ بیجنگ اور پاکستان کے درمیان قرض کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کے مطابق چین 340میگاواٹ کے دو ایٹمی ری ایکٹر صوبہ پنجاب کے مقام چشمہ میں تعمیر کرے گا ، اس اعلان کو اخبارات میں حقائق سے ہٹ کر پیش کیا گیا جب کہ دراصل صورتحال یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان ایٹمی تعاون پر 1980ء میں طویل المیعاد معاہدے ہوئے تھے جس میں ان ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر بھی شامل تھی ، چینی کمپنیوں نے 1991ء میں چشمہ پہنچ کر ایٹمی پلانٹ کی تعمیر کا آغاز کیا اور 2000ء میں چشمہ کے مقام پر پہلا ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کے لئے مکمل کیا گیا جس کی پاکستان کو اشد ضرورت تھی ، پانچ سال بعد چینی کمپنیوں نے چشمہ 2کی تعمیر شروع کی جو آئندہ سال کام شروع کردے گا ، چین اور پاکستان دونوں نا صرف نیوکلیئر سپلائرزگروپ (این ایس جی )کے قوانین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں بلکہ وہ حقیقی طورپر شفاف اور پر امن ٹیکنالوجی کے لئے تعاون کررہے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :