پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس،خورشید شاہ غلط معلومات فراہم کرنے پر پی آئی اے حکام پر برس پڑے

ہمارا مقصد عوام کا پیسہ بچانا اور عوام کو فائدہ دینا ہے، پی آئی اے میں 2010-13تک تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ٹکٹ سستے تھے مگر آج تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود 30فیصد اضافہ کیا گیاہے، چیئرمین کمیٹی پی آئی اے والے ملائی کھانا چاہتے ہیں، ڈائریکٹرسول ایوی ایشن ، پی آئی ا ے کے موجودہ نقصانات31ارب روپے ہیں،آڈٹ حکام

جمعرات 10 مارچ 2016 19:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 مارچ۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ پی آئی اے حکام پر غلط معلومات دینے کے حوالے سے برس پڑے اور کہاکہ ہمارا مقصد عوام کا پیسہ بچانا اور عوام کو فائدہ دینا ہے، پی آئی اے میں 2010-13تک تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ٹکٹ کم ریٹ پر دستیاب تھے مگر آج تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود 30فیصد اضافہ کیا گیاہے،اجلاس میں پی آئی اے حکام نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کے چیف لیگل آفیسر25لاکھ روپے تنخواہ سمیت ماہانہ40لاکھ روپے تک ٹی اے ڈی اے کی مدلیتے ہیں،چند ملازمین کے علاوہ باقی تمام ملازمین کی تنخواہ اوسطاً50ہزار روپے ہے۔

پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر12لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پی آئی اے ملازمین پوری دنیا میں سب سے کم تنخواہ لیتے ہیں،پی آئی اے کے پاس80جہاز ہونے چاہئے تھے مگر اب تعداد کم ہو گئی ہے،2003-04میں پی آئی اے نے منافع کیا اس کے بعد اب تک نقصان میں جارہاہے،330ارب روپے کے لون پر4ارب10کروڑروپے ماہانہ شرح سود اداکیا جارہاہے ۔سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر ایئر مارشل عاصم نے کہا کہ پی آئی اے والے ملائی کھانا چاہتے ہیں،آڈٹ حکام نے کہا کہ پی آئی ا ے کے موجودہ نقصانات31ارب روپے ہیں،کمیٹی کو نقصانات بتائے جارہے ہیں،پی آئی اے کے پاس عمرہ اور حج کا بڑابزنس ہے،کمیٹی نے پی آئی اے سے بند ہونے والے روٹس سمیت پی آئی اے کی جائیداد اورڈائریکٹرز کی تعداد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلیں۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا،اجلاس میں پی آئی اے کے حکام کی جانب سے کمیٹی کو پی آئی اے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی،چیئرمین نے پی آئی اے اعلی حکام کی اجلاس میں عدم شرکت پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فورم کو سنجیدہ لینا چاہیے ۔پی آئی اے کے ڈائریکٹر کارپوریٹ پلاننگ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پی آئی اے میں کل ملازمین کی تعداد18ہزار سے زائد ہے جن میں14ہزار703ملازمین مستقل بنیادوں پر کام کررہے ہیں جبکہ35سو ملازمین عارضی بنیادوں پر تعینات ہیں،جن میں57جنرل اور18ڈائریکٹرز ہیں۔

کمیٹی رکن شفقت محمود نے کہا کہ 14ہزارملازمین کے ہوتے ہوئے مزیدساڑھے3ملازمین رکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی جس پر پی آئی اے حکام نے جواب دیاکہ عارضی ملازمین کی تنخواہیں12ہزارسے18ہزار تک ہیں،4ہزار5سو انجیئرنگ سٹاف ہے اور5ہزار ایئرپورٹ سروسز کے ملازمین سمیت1ہزارجہاز کے اندر کا عملہ ہے،کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا ہے کسٹم واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سپیئر پارٹس بھی رکھے ہوئے تھے جو کہ کسٹم اداکرکے حاصل لرلئے گئے ہیں،2015میں پی آئی اے کا منافع 2ارب20کروڑ روپے تھا،2016میں 113بلین کے بزنس کا ہدف رکھا گیا ہے،پی آئی اے کی نجکاری کرکے سرمایہ کاروں کو لایا جارہاہے پی آئی اے کی مثال قومی کرکٹ کی طرح ہے ان کی طرح ہمیں بھی لیڈرشپ کی ضرورت ہے،ادارے کی کارکردگی میں تسلسل کیلئے احتساب کاعمل آگے بڑھانا ہوگامگر جب بھی احتساب کی بات کرتے ہیں روک لیا جاتاہے۔

کمیٹی رکن شیخ رشید نے کہا کہ ملک صحیح بندے کو درست ملازمت پر نہیں لگایا جاتا۔کمیٹی رکن جنید انوار چوہدری نے کہا کہ پی آئی اے کے330ارب کے لون کا ذمہ دار کون ہے، بزنس کلاس کے متعلق سوال پر پی آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ فریکوئنٹ فلائر پروگرام شروع کیا جارہاہے اورمسافروں کو خصوصی پیکج بھی دیا جائے گا، کمیٹی کے رکن سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ پی آئی اے حکام کو اثاثوں کے حوالے سے معلومات ہی نہیں جس پر پی آئی اے حکام نے بتایا کہ موجودہ اثاثے واجب الادا قرضوں سے کم ہیں،لون کو کم کرنے کیلئے سٹریٹجک پلان بنایا گیا مگر بورڈ نے منظور نہیں کیاکمیٹی نے بورڈ ممبران کی فہرست طلب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئیں ہیں، پی آئی اے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ دو سال میں 80فیصد پروازوں میں اضافہ ہوا اور ایک جہاز کے ساتھ390ملازمین ہیں۔