پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی آئی اے کی طرف سے پیش کردہ اثاثوں کی تفصیلات سے عدم اتفاق ظاہر کر دیا

جمعرات 10 مارچ 2016 14:20

اسلام آباد۔ 10 مارچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔10 مارچ۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی آئی اے کی طرف سے پیش کردہ اثاثوں کی تفصیلات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ پی اے سی کو پی آئی اے کے تمام اثاثوں، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ان کی پیشہ وارانہ مہارت سے متعلقہ تمام تفصیلات پیش کی جائیں، پی اے سی قومی ایئر لائن کی بہتری کیلئے سفارشات پر مبنی مسودہ مرتب کرکے حکومت بھجوائے گی جبکہ پی آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ذمہ اس وقت مجموعی طور پر 320 ارب روپے کے واجبات ہیں، سود اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے ماہانہ 4 ارب روپے سے زائد رقم درکار ہوتی ہے، پی آئی اے میں اصلاحات کیلئے پالیسیوں کا تسلسل اور احتساب کا نظام ہو تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

اجلاس جمعرا ت کو پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں پی اے سی کے ارکان پرویز ملک، ڈاکٹر درشن صاحبزادہ، نذیر سلطان، جنید انوار چوہدری، ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو، شیخ رشید احمد، چوہدری پرویز الہٰی، راجہ جاوید اخلاص، محمود اچکزئی، شفقت محمود، سردار عاشق حسین گوپانگ، رانا تنویر حسین اور شیخ روحیل اصغر نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

پی آئی اے حکام نے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے 14700 ملازمین ہیں۔ اس کے علاوہ تین ہزار لوگ سروس فراہم کرتے ہیں۔ پی اے سی نے کہا کہ اگر سیکرٹری یا چیئرمین نہیں تھے تو چیف آپریٹنگ افسران کو آنا چاہئے تھا۔ بریفنگ دیتے ہوئے پی آئی اے حکام نے کہا کہ پی آئی اے میں 57 جنرل منیجر ہیں اور 19 ڈائریکٹرز ہیں، 4500 انجینئرنگ سٹاف ہے، 5 ہزار سے زائد ملازمین ایئر پورٹس پر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2010ء میں پی آئی اے کے ملازمین 17465 تھے، ان میں سے اب 3500 ملازمین کی کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے میں موجودہ دور حکومت میں بھرتیاں نہیں ہوئیں۔ گروپ 1 سے 4 تک 30 فیصد، 5 سے 9 تک 80 فیصد اور پائلٹوں کی تنخواہیں 20 فیصد بنتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پی آئی اے حکام نے بتایا کہ دنیا میں دیگر ایئر لائنوں کے مقابلہ میں ہمارے ملازمین کا خرچہ سب سے کم ہے۔

پی آئی اے کے پاس اس وقت 38 جہاز ہیں، اس وقت ہمارے پاس 80 جہاز ہونے چاہئے تھے، 1998ء میں ہمارے پاس 50 جہاز تھے۔ اس وقت ایک جہاز کیلئے ملازمین کی تعداد 389 بنتی ہے، ہمارا ہدف ہے کہ فی جہاز ملازمین کی تعداد 170 تک لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال پی آئی اے کا سی ای او تبدیل کر دیا جاتا ہے، ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں، جب اس پر عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو انہیں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں پی آئی اے حکام نے بتایا کہ 2 ملین روپے سے زائد تنخواہ چیف لیگل افسر لیتے ہیں جن کی وجہ سے پی آئی اے کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ ایک ملین تنخواہ 12 انتہائی سینئر پائلٹ وصول کرتے ہیں، پی آئی اے کے سی ای او کی تنخواہ 25 لاکھ روپے ہے، ان کی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ پی آئی اے کے ملازم کی کم سے کم تنخواہ 15 ہزار ہے، پوری ایئر لائن کے ملازمین کی اوسط تنخواہ 50 ہزار سے کم بنتی ہے۔

سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ سی ای او 25 لاکھ تنخواہ لیتا ہے جب غریب ملازمین کو 15 ہزار روپے تنخواہ ادا کی جائے تو وہ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں پی آئی اے حکام نے کہا کہ دنیا ایک بڑی کمپنی ایئر کیب کے ساتھ بوئنگ 777 کیلئے معاہدہ کیا ہے، جب تک ہم اپنے ملازمین کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ نہیں دیں گے وہ ہمارے پاس کام کرنے کی بجائے دنیا کی دیگر ایئر لائنوں میں کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔

ترکی، سری لنکا اور یمن وغیرہ سے مرمت کیلئے جہاز آتے ہیں، ہم اپنے جہازوں کو 320 اور 777 بوئنگ جہازوں سے تبدیل کر رہے ہیں۔ ہمارا انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اتنا اچھا ہے کہ ہم پرانے جہازوں کو اب تک بہتر انداز میں چلا رہے ہیں۔ گذشتہ سال گیارہ 320 اور چار 777 بوئنگ ہوائی بیڑے میں شامل کئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال گروپ ایک سے چار تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بزنس کو بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ 2015ء میں پی آئی اے کا آپریٹنگ منافع 2 ارب 20 کروڑ رہا، ہمارا آئندہ سال کا ہدف 113 ارب روپے ہے، کم ایندھن استعمال کرنے والے جہاز لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ پی آئی اے کیٹرنگ، انجینئرنگ، ایئرپورٹ اور فیڈکس سروسز کو ایس بی یوز کے تحت بہتر بنایا جائے گا جس سے پی آئی اے کی حالت یقینی طور پر بہتر بنائی جا سکے گی۔

پی آئی اے کے کل اخراجات میں سے پہلے 55 فیصد خرچہ ایندھن پر تھا اب یہ کم ہو کر 30 فیصد تک آ گیا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ پی آئی اے حکام نے بریفنگ میں نقصانات کم دکھائے ہیں۔ ایندھن کی لاگت میں کمی تیل کی قیمتوں اور کم ایندھن استعمال کرنے والے جہاز بیڑے میں شامل کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن ایئر مارشل عاصم نے کہا کہ پی آئی اے روٹس کے حوالہ سے صرف ملائی کھانا چاہتی ہے، جب انہوں نے ہماری تجاویز سے اتفاق نہیں کیا تو پھر ہم نے دیگر ایئر لائنوں کو اجازت دی۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ پی آئی اے ہمارا اثاثہ ہے، جب تک اس میں صحیح کام کیلئے صحیح آدمی نہیں لگایا جائے گا حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ پی آئی اے کے پاس حج اور عمرے کا 60 فیصد کاروبار ہے جو ان کے پاس سونے کی چڑیا ہے، اوپن سکائی پالیسی کے تحت امارات ایئر لائن کو لامحدود لینڈنگ رائٹس دیئے ہوئے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ جب پی آئی اے میں باہر سے مداخلت ہو گی تو یہ ادارہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا۔

پی آئی اے حکام نے کہا کہ ادارے میں تسلسل اور احتساب کے نظام کی اشد ضرورت ہے، ہمارے سی ای او کو اگر کام کرنے دیا جائے اور ہر سال انہیں تبدیل نہ کیا جائے تو تو ادارہ میں بہتری آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخبار میں اشتہار دینے کے باوجود پیشہ وارانہ مہارت کے حامل لوگ پی آئی اے میں خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ 2015ء میں ان تمام حالات کے باوجود آپریٹنگ منافع ہوا ہے۔

سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ جب پی آئی اے کی نجکاری کی جائے گی تو ایئر لائن کے قرضے ختم کرنا پڑیں گے، اگر ابھی یہ قرضے ختم کر دیئے جائیں تو پی آئی اے سالانہ 50 ارب کا منافع دے سکتی ہے۔ پی آئی اے کے پاس کئی ایسے روٹس ہیں جو کروڑوں روپے میں بھی دوسری ایئر لائنز کو نہیں مل سکتے، ہمیں ان روٹس کی تفصیلات بتائی جائیں جو بند کر دیئے گئے ہیں۔

پی اے سی نے پی آئی اے بورڈ کے ارکان اور ان کی پیشہ وارانہ مہارت کی تفصیلات طلب کر لیں۔ پی اے سی کے استفسار پر بتایا گیا کہ پی آئی اے صرف 2003ء اور 2004ء کے دوران منافع میں تھی۔ پی آئی اے کے واجبات اور قرضے مجموعی طور پر 320 ارب روپے کے ہیں۔ قرضوں پر ہمیں ایک ارب 10 کروڑ روپے ماہانہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح قرضوں اور سود کی مجموعی ادائیگی کی مد میں ہمیں ماہانہ 4 ارب 10 کروڑ ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ پی آئی اے کے اثاثوں کی حقیقی مالیت کا تعین کرکے تفصیلات پی اے سی کو پیش کی جائیں۔ پی اے سی کے ارکان قومی ایئر لائن کی بہتری کیلئے سفارشات پر مببنی مسودہ مرتب کرکے حکومت کو بھجوائے گی۔

متعلقہ عنوان :