افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے خفیہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا

بدھ 9 مارچ 2016 14:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 مارچ۔2016ء) افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے خفیہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات سے انکار کے باوجود بات چیت کی امید برقرار ہے تاہم انھوں نے خفیہ مذاکرات کے امکان کو مکمل طور پر رد کیا ہے۔ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ طالبان نے مذاکرات سے انکار کر کے اپنی ساکھ کو انتہائی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو امن کا داعی قرار دے رہے تھے ‘غیر ملکی افواج تو کم ہوئی تھیں اور ان کے مکمل انخلا کا بھی وقت آگیا تھا اس کے ساتھ طالبان کے تشدد میں کمی آنی چاہیے تھی تاہم انھوں نے اس میں اضافہ کر دیا۔ عوامی مقامات کو نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

اب وہ بھی ان کی موجودگی کے ذمہ دار ہیں۔ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے کہاکہ افغان حکومت نے تو مذاکرات کے لیے اپنی تمام شرائط چھوڑ دی تھیں اور غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

افغان حکومت پر بھی دباوٴ تھا کہ ان لوگوں سے مذاکرات نہ کریں جو خودکش حملے کرتے ہیں اور طالبان کی یہ شرائط تو مذاکرات میں بھی زیر بحث آ سکتی ہیں۔ ان مذاکرات کی کیا افادیت جب سب شرائط پہلے تسلیم کر لی جائیں؟‘انہوں نے کہاکہ وہ جانتے ہیں کہ اکثر طالبان کم از کم جنھیں وہ جانتے ہیں امن چاہتے ہیں ‘ان کے بھی بچے ہیں، خاندان ہیں اور وہ جنگ سے تنگ ہیں۔

مجھے امید ہے کہ یہ لوگ ان پر حاوی ہو جائیں گے جو امن نہیں چاہتے اور جنگ کے ذریعے کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ بعض اطلاعات ہیں کہ طالبان عوامی سطح پر تو مذاکرات سے انکار کریں گے تاہم اندر ہی اندر خفیہ مذاکرات جاری رکھیں گے؟ انہوں نے کہاکہ ہمیں یعنی افغان حکومت کو اس کا علم نہیں لیکن ہم خفیہ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ اس سے بداعتمادی بڑھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم شفاف مذاکرات کریں گے کیونکہ معلومات تک رسائی لوگو ں کا حق ہے۔ اگر نیت نیتی سے بھی ایسے خفیہ مذاکرات ہوں تو ان کا تاثر عوام میں اچھا نہیں ہوتا۔ خفیہ مذاکرات سے شکوک وشبہات پیدا ہوتے سیاسی بھی اور عوامی سطح پر بھی۔ ہم تمام باتیں عوام کے سامنے کرنا چاہتے ہیں۔اس سوال پر کہ وہ مذاکرات کیلئے اب بھی اتنے پرامید کیوں ہیں عمر زاخیلوال نے کہا کہ ایک جو معلومات میرے پاس ہیں اور پھر میری شخصیت جو پرامید ہے ‘ امن نہ صرف عوام بلکہ طالبان اور ان کے خاندانوں کی ضرورت ہے۔

افغانوں نے بھی برا وقت گزارا ہے۔افغان سفیر نے کہا کہ وہ طالبان کے مذاکرات سے مشروط انکار کو صاف انکار کے طور پر نہیں لیتے اور مذاکرات کے لیے قائم چار ملکی گروپ کی اہمیت برقرار ہے۔یقینا ہم اس انکار کو انکار کے طور پر نہیں لیں گے ‘میں اب بھی پرامید ہوں کہ مذاکرات ہوں گے۔ مذاکرات بحال ہوتے ہیں یا نہیں تاہم اس چار ملکی گروپ کی افادیت قائم رہے گی۔

پاکستان کے طالبان پر اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سرتاج عزیز نے واشنگٹن میں کہا ہے کہ پاکستان کا ان پر اثر ہے۔ ہم اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ایک اہم عوامی شخصیت کے ایسے بیان کو مثبت زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ دیکھنا ہے کہ آیا حکومت پاکستان اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ڈاکٹر عمر نے کہا کہ مارچ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی تھی۔

کسی نے وعدہ نہیں کیا تھا۔ ہر کسی کی کوشش تھی خصوصا پاکستان کی جو بااثرکھتا ہے اور امن مذاکرات کی بہتری کے لیے اسے استعمال میں لا رہا ہے۔ ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ اسی لیے ہمیں امید ہے کہ ہم طالبان کے اندر تقسیم کے باوجود قابل ذکر تعداد میں ان متعلقہ طالبان کو میز کے پر لے آئیں گے۔اس سوال کے جواب میں کہ آیا وہ پاکستان کی کوششوں کو اس مرتبہ سنجیدہ اور نیک نیتی پر مبنی دیکھتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہمیں پاکستان پر اعتماد ہے تاہم مجھے یہ کہنے دیں کہ بیاعتمادی کی فضا بدستور قائم ہے ‘ ہمیں اسے تبدیل کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ بداعتمادی کی بہت سی وجوہات ہیں جن کے بارے میں وہ بات نہیں کرنا چاہتے تاہم ہمیں پاکستانی قیادت کی افغانستان میں امن اور بحالی کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی نیت پر اعتماد ہے۔

متعلقہ عنوان :