پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کی کوششیں سنجیدہ ،نیک نیتی پر مبنی ہیں،افغانستان

طالبان سے بات چیت کی امید باقی مگر خفیہ مذاکرات نہیں ہوں گے،جنگجوؤں نے انکار کرکے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا،افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال کا انٹرویو

منگل 8 مارچ 2016 20:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 مارچ۔2016ء) پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے کہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات سے انکار کے باوجود بات چیت کی امید برقرار ہے تاہم انھوں نے خفیہ مذاکرات کے امکان کو مکمل طور پر رد کیا ہے۔پاکستان آمد کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کو اپنے پہلے خصوصی انٹرویو میں افغان صدر کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان کا کہنا تھا کہ طالبان نے مذاکرات سے انکار کر کے اپنی ساکھ کو انتہائی زیادہ نقصان پہنچایا ،انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو امن کا داعی قرار دے رہے تھے۔

غیر ملکی افواج تو کم ہوئی تھیں اور ان کے مکمل انخلا کا بھی وقت آگیا تھا۔ اس کے ساتھ طالبان کے تشدد میں کمی آنی چاہیے تھی لیکن انھوں نے اس میں اضافہ کر دیا۔

(جاری ہے)

عوامی مقامات کو نشانہ بنایا۔ اب وہ بھی ان کی موجودگی کے ذمہ دار ہیں۔ڈاکٹر عمر کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے تو مذاکرات کے لیے اپنی تمام شرائط چھوڑ دی تھیں اور غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ افغان حکومت پر بھی دباؤ تھا کہ ان لوگوں سے مذاکرات نہ کریں جو خودکش حملے کرتے ہیں اور طالبان کی یہ شرائط تو مذاکرات میں بھی زیر بحث آ سکتی ہیں۔ ان مذاکرات کی کیا افادیت جب سب شرائط پہلے تسلیم کر لی جائیں؟انہوں نے کہاکہ ان کے بھی بچے ہیں، خاندان ہیں اور وہ جنگ سے تنگ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ لوگ ان پر حاوی ہو جائیں گے جو امن نہیں چاہتے اور جنگ کے ذریعے کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ بعض اطلاعات ہیں کہ طالبان عوامی سطح پر تو مذاکرات سے انکار کریں گے لیکن اندر ہی اندر خفیہ مذاکرات جاری رکھیں گے؟ ان کا کہنا تھاکہ ہمیں یعنی افغان حکومت کو اس کا علم نہیں لیکن ہم خفیہ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ اس سے بداعتمادی بڑھتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم شفاف مذاکرات کریں گے کیونکہ معلومات تک رسائی لوگو ں کا حق ہے۔

اگر نیت نیتی سے بھی ایسے خفیہ مذاکرات ہوں تو ان کا تاثر عوام میں اچھا نہیں ہوتا۔ خفیہ مذاکرات سے شکوک وشبہات پیدا ہوتے سیاسی بھی اور عوامی سطح پر بھی۔ ہم تمام باتیں عوام کے سامنے کرنا چاہتے ہیں۔اس سوال پر کہ وہ مذاکرات کے لیے اب بھی اتنے پرامید کیوں ہیں عمر زاخیلوال نے کہا کہ ایک جو معلومات میرے پاس ہیں اور پھر میری شخصیت جو پرامید ہے۔

امن نہ صرف عوام بلکہ طالبان اور ان کے خاندانوں کی ضرورت ہے۔ افغانوں نے بھی برا وقت گزارا ہے،افغان سفیر نے کہا کہ وہ طالبان کے مذاکرات سے مشروط انکار کو صاف انکار کے طور پر نہیں لیتے اور مذاکرات کے لیے قائم چار ملکی گروپ کی اہمیت برقرار ہے۔انہوں نے کہاکہ یقینا ہم اس انکار کو انکار کے طور پر نہیں لیں گے۔ میں اب بھی پرامید ہوں کہ مذاکرات ہوں گے۔

مذاکرات بحال ہوتے ہیں یا نہیں لیکن اس چار ملکی گروپ کی افادیت قائم رہے گی۔پاکستان کے طالبان پر اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سرتاج عزیز نے واشنگٹن میں کہا ہے کہ پاکستان کا ان پر اثر ہے۔ ہم اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ایک اہم عوامی شخصیت کے ایسے بیان کو مثبت زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ دیکھنا ہے کہ آیا حکومت پاکستان اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا وہ پاکستان کی کوششوں کو اس مرتبہ سنجیدہ اور نیک نیتی پر مبنی دیکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پاکستان پر اعتماد ہے۔ تاہم مجھے یہ کہنے دیں کہ بداعتمادی کی فضا بدستور قائم ہے۔ ہمیں اسے تبدیل کرنا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ بداعتمادی کی بہت سی وجوہات ہیں جن کے بارے میں وہ بات نہیں کرنا چاہتے، ’لیکن ہمیں پاکستانی قیادت کی افغانستان میں امن اور بحالی کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی نیت پر اعتماد ہے۔