سپریم کورٹ نے کراچی میں امن و امان سے متعلق پولیس کی دوسری رپورٹ بھی مسترد کر دی ، مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کوسرزنش،2012 سے اب تک پیرول پر رہاہونے والوں کی فہرست طلب

وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں،اداروں کے درمیان ٹکراؤ ختم کیا جائے، شہر کے وسیع تر مفاد میں قیام امن کیلئے مل کر کام کیا جائے، عدالت کا حکم سنگین مقدمہ ایک دن میں ہی اے کلاس کردیا جاتا ہے،رینجرز کو اختیارات دینے کا معاملہ حکومت کا ہے،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس

منگل 8 مارچ 2016 17:56

کر اچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔08 مارچ۔2016ء) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں آئی جی سندھ کی شہر میں امن و امان سے متعلق دوسری رپورٹ بھی مسترد کر دی اور مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کو سرزنش کرتے ہوئے 2012 سے اب تک پیرول پر رہاہونے والوں کی فہرست طلب کر لی،عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں،اداروں کے درمیان ٹکراؤ ختم کیا جائے، شہر کے وسیع تر مفاد میں قیام امن کیلئے مل کر کام کیا جائے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ سنگین مقدمہ ایک دن میں ہی اے کلاس کردیا جاتا ہے،رینجرز کو اختیارات دینے کا معاملہ حکومت کا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈر بیٹھ کر رینجرز کے اختیارات کو طے کرلیں، کیس کی مزید سماعت (کل)جمعرات تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

(جاری ہے)

منگل کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے بدامنی کیس کے فیصلے پر علمدرآمد سے متعلق درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے دوسری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے 159 واقعات ہوئے جن میں سے 83 واقعات کے مقدمے درج کیے گئے، 53 ملزمان گرفتار جب کہ 15 ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے، 25 مقدمات میں پولیس کی تفتیش جاری ہے۔

عدالت عظمی نے آئی جی سندھ کی اس رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا اور آئی جی سندھ کی رپورٹ مسترد کردی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ اس رپورٹ میں کچھ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سنگین مقدمہ ایک ہی دن میں اے کلاس کردیا جاتا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سے کہا کہ آپ کے افسر جھوٹ بولتے ہیں ، آپ کا جو افسر رپورٹ تیار کرتا ہے وہ جعلسازی کرتا ہے ، آپ کے افسران کو بریفنگ نہیں دیتے تو آپ بیٹھ جائیں ، ہم ان افسران سے پوچھ لیتے ہیں، ایک شخص جو خود کو آئی جی کہتا ہے اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے اسے پتہ ہی نہیں، چیف سیکرٹری صاحب آپ بتائیں محکمہ پولیس کیسے چل رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی جلدی تبادلے ہوں گے تو افسران کام کیسے کریں گے، جب ایک پولیس افسر کا سال میں 7 بار تبادلہ ہوگا اس کا مطلب اسے کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ، ان حالات میں گڈ گورننس کیسے آسکتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ ہمارے لیے کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں، اس میں اعدادو شمار کے علاوہ کچھ نہیں، لگتا ہے آپ کچھ نہیں بتاناچاہتے، آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کا کراچی پولیس پر کوئی کنٹرول ہی نہیں۔

جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس نامناسب ہیں، آئی جی سندھ کی بات پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی کارکردگی کے لحاظ سے یہ ریمارکس بالکل مناسب ہیں، اگر آپ کو اعتراض ہے تو ایک درخواست دیں۔ بینچ نے آئی جی سندھ سے ٹارگٹ کلنگ کے زیر التوا 57 مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان مقدمات کی رپورٹ جمعرات تک جمع کرادی جائے۔

چیف سیکرٹری صدیق میمن نے بھی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پے رول پر 7 ملزموں کو رہا کیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ جو ملزم آپ نے رہا کئے ان میں سے 3 دہشت گردی کے سزا یافتہ ملزم تھے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کون ملزم تھے اور ان کو کیوں رہا کیا گیا۔ آئی جی سندھ کے جواب نہ دینے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ10 مارچ کو ان تینوں ملزموں کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اداروں کا ٹکراؤ ختم کیا جائے، شہر کے وسیع تر مفاد میں قیام امن کیلئے مل کر کام کیا جائے، محکمہ پولیس میں کوئی بھی غلط کام ہوا تو ہم آپ سے پوچھیں گے، وفاق، سندھ حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز رینجرز کے تحفظات کا حل تلاش کریں، کیس کی مزید سماعت (کل)جمعرات تک کیلئے ملتوی کر دی گئی