وزیر اعلیٰ پنجاب اسلام ، آئین اور خواتین کے حقوق سے متعلق عالمی قوانین سے متصادم حقوق نسواں بل واپس لیں ،دردانہ صدیقی

قرآن و سنت ، آئین اور عالمی انسانی حقوق کی روشنی میں خواتین کے تحفظ کا بہترین بل بنا کر ان کی خدمت میں پیش کر نے کیلئے تیار ہیں،سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی حلقہ خواتین

ہفتہ 5 مارچ 2016 21:10

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔05 مارچ۔2016ء) سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی حلقہ خواتین ڈاکٹر دردانہ صدیقی نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیاہے کہ وہ اسلام ، آئین پاکستان اور خواتین کے حقوق سے متعلق عالمی قوانین سے متصادم حقوق نسواں بل کو واپس لیں ۔ ہم قرآن و سنت ، آئین پاکستان اور عالمی انسانی حقوق کی روشنی میں خواتین کے تحفظ کا بہترین بل بنا کر ان کی خدمت میں پیش کر نے کے لیے تیار ہیں ۔

پنجاب اسمبلی کا پاس کردہ موجودہ بل اسلامی تہذیب و تمدن سے ٹکراؤ اور خاندان کو توڑنے کا بل ہے جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ۔ ہم اس بل کے خلاف کورٹ میں بھی جائیں گے اور عوام کی آگاہی کے لیے بھر پور تحریک بھی چلائی جائے گی ۔ ان خیالات اظہار انہوں نے رکن قومی اسمبلی عائشہ سید ، اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، ڈاکٹر عافیہ سرور ، ڈاکٹر رخسانہ جبیں ، ڈاکٹر حمیرا طارق کے ہمراہ منصورہ میں پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر دردانہ صدیقی نے کہاکہ حکمران قومی آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تو کسی نئے بل کی ضرورت نہ پڑے ۔ خواتین پر ہونے والے ظلم و جبر کا راستہ روکنے کے لیے ملکی آئین کی دفعات 8 تا 28 عورتوں کے تمام حقوق کا جامع چارٹر ہیں جن پر عملدرآمد کر کے معاشرے میں خواتین کو بہترین مقام دلایا جاسکتاہے مگر حکمران ان پر عمل کرنے کی بجائے مغرب کی ذہنی غلامی کے ہاتھوں مجبور ہو کر آئے روز کوئی نہ کوئی نیا ڈرامہ شروع کر دیتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ عورت کو اسلام نے جو محترم مقام عطا فرمایا ہے ، وہ کسی دوسرے مذہب اور معاشرے میں نہیں ۔ اسلام نے ماں ، بہن ، بیٹی کے مقدس رشتوں کی صورت میں عورت کو محبت و مروت کا مرکز بنایا ہے اور شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے غمگسار قرار دے کر ان سے ایک خاندان کی بنیاد رکھی ہے ۔ عائشہ سید نے کہاکہ پاکستانی عورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لیکن مغربی میڈیا جس طرح ہمارے معاشرے کی گھناؤنی تصویر پیش کررہاہے وہ اسلام سے تعصب اور دشمنی کی بنا پر ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی خاص طور پر پاکستانی معاشرے میں عورت کو جو مرکزی اور باوقار حیثیت حاصل ہے ، اس کا مغرب اور یورپ میں تصور نہیں ۔ مغرب نے عورت کو گھر سے نکال کر اور نام نہاد آزادی دے کر ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیاہے ۔ عورتوں کے خلاف مغربی معاشرے میں جرائم کی شرح دنیا بھر سے زیادہ ہے جبکہ مسلم ممالک اور معاشرے میں عورت آج بھی زیادہ محفوظ ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ اپنا آئینی کردا ر پورا کرے تو معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔ انہوں نے تحفظ نسواں بل میں موجود دفعات کو صریحاً قرآن و سنت ، آئین پاکستان اور عالمی قوانین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیاہے ۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے میڈیا میں آنے والی ان خبروں کی سختی سے تردید کی کہ مولانا خان محمد شیرانی نے خواتین بل پیش کرنے والوں پر آئین کی دفعہ 6 لگانے کی بات کی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بل پر گہرے غور و خوض اور دو دن کے بحث و مباحثہ کے بعد مسترد کیاہے ۔