سپریم کورٹ کا شہید بے نظیربھٹو وومن یونیورسٹی پشاورمیں وائس چانسلرکی تقرری کے حوالے سے مقدمہ میں غلط معلومات فراہم کرنے پرسخت برہمی کااظہار

سیکرٹری ہائیرایجوکیشن خیبرپختونخوا کوآج وضاحت کیلئے طلب کر لیا، کمیشن میں ڈیپورٹیشن پرآئے افسران کی فہرست بھی طلب

بدھ 2 مارچ 2016 22:26

اسلام آباد ۔ 2 مارچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔02 مارچ۔2016ء) سپریم کورٹ نے شہید بے نظیربھٹو وومن یونیورسٹی پشاورمیں وائس چانسلرکی تقرری کے حوالے سے مقدمہ میں غلط معلومات فراہم کرنے پرسخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے سیکرٹری ہائیرایجوکیشن خیبرپختونخوا کوآج وضاحت کیلئے طلب کر لیا۔ بدھ کوچیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس امیرخانی مسلم اورجسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوخواتین درخواست گزاروں پروفیسر ڈاکٹریاسمین نواز اورپروفیسرشاہین اختر کی جانب سے ان کے وکیل پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کوبتایاکہ امیدواروں کی سلیکشن کیلئے9 رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے یونیورسٹی میں وائس چانسلرکی تقرری کیلئے بھیجی گئی سفارشات میں میرٹ کوسراسرنظراندازکیاہے۔

(جاری ہے)

جس خاتون کو وی سی لگایاگیاہے وہ تعلیم، قابلیت اورتجربہ میں میری موکل درخواست گزاروں کے مساوی نہیں جبکہ تقررنامہ جاری کرتے وقت انتظامی اتھارٹی نے کسی سے مشاورت نہیں کی۔

جسٹس امیرخانی مسلم نے کہاکہ جب کمیٹی نے تین نام انتظامی اتھارٹی کومنظوری کیلئے بھیج دیئے تھے توکسی نہ کسی کی تقرری توہونا تھی، اب دوسرے اورتیسرے نمبرپر آنے والیوں کی تقرری نہیں کی گئی، اگران میں سے کسی کا تقرر کرلیاجاتا تو دوسری امیدوار اعتراض اٹھاتیں۔ فاضل وکیل نے کہا کہ یہاں انتظامی آرڈرکوبھی نظراندازکیاگیا ہے اورامیدواروں کے حوالے سے دستاویزی شواہد وزیراعلٰی کوپیش نہیں کئے گئے، انتظامی حکم کامطلب ثالثی اندازمیں معاملہ کا حل نہیں ہوتا بلکہ میرٹ کے مطابق مناسب ترین چناؤاورانتخاب ہوتاہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جب ایک مقررہ نظام موجود ہے توہرمعاملہ عدالت میں کیوں لایاجاتاہے، اگریہ صورتحال رہی تو تقررو تبادلے کیخلاف ہرکوئی عدالت کارخ کرنے لگے گا اورکہے گا کہ اس کاغلط تبادلہ ہواہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فورم منتخب انتظامی اتھارٹی کے اختیارات پرنظررکھنے کیلئے نہیں ہوتا ورنہ ایک پوسٹ کیلئے تین نام بھیجنے کی کیاضرورت تھی، اگرآ پ کی بات مان لی جائے تووزیراعلٰیٰ صرف ربڑ سٹیمپ کاکرداراداکرے گا، ہم پرانے زمانے کے بادشاہ تو نہیں کہ چاہیں کسی کوسونے کاتاج پہنائیں یا اس کاسرقلم کردیں، ہم نے توآئین اورقانون کے مطابق چلناہے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار پروفیسرڈاکٹریاسمین نواز نے عدالت سے کہاکہ ہم کچھ حقائق عدالت کے سا منے لاناچاہتے ہیں ، باہرہمیں کوئی نہیں سنتا، ہمارے لئے یہ عدالت ہی واحد امید ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ کیاسارے کام ہم نے کرنے ہیں ،انتطامی ادارے موجود ہیں، نظام بنایاگیاہے ،متعلقہ کمیٹی کے ممبران بھی ہیں،اب اگروہ جان بوجھ کرغلط کام کرتے ہیں توہم کیاکریں۔

ڈاکٹریاسمین نواز نے کہاکہ میں عدالت کے روبرویہ واضح کرناچاہتی ہوں کہ جب کسی کام کاآغازہی غلط ہو تو اس کانتیجہ کیاہوگا ،ہمیں امیدواروں کی فہرست میں پہلے یادوسرے نمبروالی کی تقرری پراعتراض ہے نہ پینل ، کمیٹی یا وزیراعلٰی اورکسی دوسرے عہدیدار پر بلکہ ہمیں صوبائی ہائیرایجوکیشن کمیشن پراعتراض ہے جس نے ریکارڈ میں ردوبدل کیاہے اورعدالت کوغلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

رضیہ سلطانہ، جن کووائس چانسلرلگایاگیاہے ان کی انتظامی صلاحیت ثابت کرنے کیلئے کوائف C V) (میں پہلے ہی لکھاگیاہے کہ وہ شہید بے نظیربھٹووومن یونیورسٹی کی وائس چانسلرہے، اب عدالت اس امرکاجائزہ لے کہ اگروہ پہلے ہی یونیورسٹی کی وائس چانسلرتھیں تو اس عہدے کیلئے دوبارہ کیوں خود کوپیش کیا۔اس موقع پرخاتون پروفیسرنے اردواورفارسی کے کچھ اشعاربھی پڑھے۔

عدالت کو غلط معلومات کی فراہمی پرچیف جسٹس نے سخت برہمی کااظہارکیااور یونیورسٹی کے نمائندے سے استفسارکیا کہ عدالت کو اصل کی بجائے کیوں مختلف کوائف نامہ پیش کیاگیا ہے، بتایاجائے کہ اصل ریکارڈ کہاں ہے اورعدالت کوکیوں مس گایئڈ کیاجارہاہے۔ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا۔ انہوں نے استفسارپر مزید بتایاکہ وہ انگریزی کے لیکچررہیں اورڈیپوٹیشن پر ایچ ای سی میں سیکشن افسرکے طورپرکام کررہے ہیں۔

جسٹس امیرخانی نے ان سے کہاکہ ٹیچنگ شعبہ کے فردکوسیکشن افسر نہیں لگایاجاسکتا، آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے بڑی بدنیتی کیاہوسکتی ہے کہ عدالت کومس گائیڈ کیا جائے، ہم جہاں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں نئی داستان نکلتی ہے، عدالتی احکامات پرعمل کیوں نہیں کیاگیا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سیکرٹری ہائیرایجوکیشن کے پی کے پیش ہوکربتائیں کہ عدالت کوکیوں مس گائیڈ کیاگیا۔

عدالت نے کمیشن کے نمائندے سے کہا کہ وہ اپنے محکمہ میں واپس جائیں ورنہ جیل جائیں گے۔ پروفیسریاسمین نے مزید کہاکہ ساراغلط کام یہی سیکشن افسران ملی بھگت سے کرتے ہیں، پوراکمیشن ڈیپوٹیشن پرآئے افسران سے بھراپڑاہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں لیکن ہم کیاکریں،کیاسارے محکموں اورڈیپارٹمنٹ کوبندکر ادیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے وقاربلورنے عدالت کو ایک استفسارپربتایا کہ وائس چانسلرکی تقرری کے حوالے سے مختصرسٹیٹمنٹ صوبائی سیکرٹری ایچ ای سی نے جمع کرایاہے۔

سماعت کے دوران ایک اور درخواست گزار پروفیسرشاہین اخترنے بتایاکہ صوبائی ہائرایجوکیشن کمیشن میں بیٹھے افسران ریکارڈ میں ردوبدل کے ذمہ دارہیں، یہ لوگ دس دس سال سے وہاں بیٹھے ہیں اوراپنے محکموں میں نہیں جاتے۔ بعدازاں عدالت نے سیکرٹری ایچ ای سی خیبرپختونخوا کوذاتی طورپرطلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی اورہدایت کی کہ کمیشن میں ڈیپورٹیشن پرآئے افسران کی فہرست بھی عدالت میں پیش کی جائے۔