ایٹمی پروگرام پر آنچ نہیں آنے دیں گے، توانائی بحران اور انتہا پسندی کے خاتمے سے ملکی معیشت ترقی کرے گی ، آپریشن ضرب عضب میں متاثرین کیلئے 190 ارب روپے رکھے ہیں، قومی زر مبادلہ کے ذخائر میں 13 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2015 تک ملک کا مجموعی قرضہ 18467ارب روپے تھا،اس میں بیرونی قرضہ 5589 ارب اوراندرونی قرضہ 12878 ارب روپے ہے، جی ڈی پی کو مالیاتی خسارہ سے الگ کریں تو سب پتہ چل جائے گا، حکومت اور اپوزیشن کو مل کر 15 سال کی معاشی پالیسی بنانا ہو گی

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی سینیٹ کو سرکاری قرضے اور اقتصادی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ

بدھ 2 مارچ 2016 22:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 مارچ۔2016ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ قرضہ 100ٹریلین امریکی ڈالر تک بھی پہنچ جائے لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ملک کی معیشت تبھی ترقی کرے گی جب اس ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ ہو گا، آپریشن ضرب عضب میں متاثرین کیلئے 190 ارب روپے رکھے ہیں، قومی زر مبادلہ کے ذخائر میں 13بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2015 تک ملک کا مجموعی قرضہ 18467ارب روپے تھا، جس میں بیرونی قرضہ 5589 ارب جبکہ اندرونی قرضہ 12878 ارب روپے ہے، جی ڈی پی کو مالیاتی خسارہ سے الگ کریں تو سب پتہ چل جائے گا، پارلیمنٹ ہی مالیاتی خسارے کی توثیق کرتی ہے، 856 ملین ڈالر آئی ایم ایف سے لیا گیا، ساڑھے 5 ارب ڈالر بھی لئے مگر پچھلی حکومتوں نے 4.4ارب ڈالر واپس بھی کئے ہیں، 7 سال کے بعد ہم عالمی مارکیٹ میں آئے، 9 سال سے پاکستان عالمی مارکیٹ سے غائب تھا، حکومت اور اپوزیشن کو مل کر 15 سال کی معاشی پالیسی بنانا ہو گی، مالیاتی خسارے کو کم کرنا ہو گا، فارن ڈائریکٹر انوسٹمنٹ پاکستان میں بڑھی ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو سینیٹ میں سرکاری قرضے اور اقتصادی صورتحال کے حوالے سے ایوان کو بریفنگ دے رہے تھے، اس موقع پر انہوں نے اراکین کے سوالوں کے جواب بھی دیئے، ان کی بریفنگ کے بعد اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ 11 سے 12 مرتبہ ہم ان سے یہ خطاب سن چکے ہیں، وزیر خزانہ تبھی مسکراتے ہیں جب قرضہ ملتا ہے، اگر میں نے کچھ کہا تو مجھ پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے، ان اعداد و شمار پر بحث ہونی چاہیے۔

محمد علی سیف نے کہا کہ پورے ایوان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ شبلی فراز نے کہا کہ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے اور تجارتی گیپ بڑھتا جا رہا ہے، وزیراعظم آفس ایکسپورٹ کے حوالے سے قانون بڑا اس کی توثیق نہیں کی گئی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 5 فیصد ہم نے ایکسپورٹر کو چھوٹ دی ہے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی 2 طرح کی ہے، ایک طرف ترقی یافتہ پاکستان ہے، دوسری طرف پسماندہ ترین علاقے بھی موجود ہیں، اقتصادی راہداری میں ایک میگاواٹ توانائی کا منصوبہ بھی مغربی راہداری میں نہیں رکھا گیا، تین سال میں پاکستان میں جو ترقی ہوئی میں مطمئن نہیں ہوں، 80فیصد توثیق شدہ منصوبوں کیلئے رقم ہی نہیں دی گئی، موجودہ بجٹ میں دس فیصد بھی ریلیز نہیں ہوتا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں 47.5فیصد صوبوں کو منتقل ہوا ہے، صوبوں میں ترقی کے پلان صوبے بنائیں گے، وفاقی حکومت ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے خیبرپختونخوا کیلئے رکھے ہیں، صوبوں کو جو رقم دی گئی صوبے اس کو استعمال میں لے کر آئیں گے، گرین لائن کا منصوبہ سندھ کے عوام کیلئے ہے، وفاقی حکومت 35فیصد میں دفاع اور ٹی ڈی پیز پر خرچ کرتی ہے، خیبرپختونخوا کے 20سال پرانے معاملات حل کئے اور وہ مسلم لیگ (ن) نے کئے ہیں، فاٹا میں 230 ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ آج پاکستان کا غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے، غریبوں کا خون ان ڈائریکٹ ٹیکس لے کر نچوڑا جا رہا ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ٹی ڈی پیز کو جن حالات میں میں نے دیکھا ہے، معیشت میں گروتھ کی بات ہو رہی ہے اور لوگوں کو روزگار ہی نہیں مل رہا، ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم میں صرف 416 لوگ شامل ہوئے ہیں، ہم معاشی پالیسی بنانے کیلئے تیار ہیں مگر وزیر تقریر کرنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم آؤٹ آف باکس اس کا حل ڈھونڈ رہے ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر کے ملک کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، سرکاری اور نجی سیکٹر کے تعاون سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ غیر ملکی زر مبادلہ اس لئے بڑھ رہا ہے کہ بعض ممالک نے ہنڈی پر پابندی عائد کی ہے، امپورٹ کا بل تیل کی مصنوعات میں کمی سے بڑھ گیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نائن الیون کے بعد دنیا میں تبدیلی آئی ہے، پٹرولیم مصنوعات میں کمی سے طلب میں اضافہ ہوا ہے، بزنس کمیونٹی کی لیڈر شپ سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ہماری رہنمائی کرے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی اعشاریے مثبت ہیں، ہمیں معیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، معیشت کا سفینہ جو ڈوب رہا تھا اسے حکومت اوپر لے کر آئی ہے، پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔

سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ سکے کی جگہ نوٹ کب آئیں گے تا کہ غریب لوگ اسے سنبھالیں۔ نسرین جلیل نے کہا کہ معیشت کے اہداف حاصل کرنے کے اثرات غریب عوام تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچستان کے 80فیصد عوام پینے کے پانی سے محروم ہیں، بلوچستان میں کسان پیکج میں 35روپے بھی نہیں رکھے گئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اقتصادی راہداری میں نقد پیسے نہیں آ رہے ہیں، صرف 11بلین ڈالر کے منصوبے ہیں جو مواصلات کے شعبے کیلئے ہیں، 35بلین ڈالر توانائی کے منصوبوں کیلئے رکھے گئے ہیں جو براہ راست سرمایہ کار خرچ کریں گے، اگر کوئی ٹیکس فائلر بن جائیں تو ان کو مراعات دی گئیں، ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے عوام کو اور کاروباری حضرات ٹیکسوں کی وصولی کرنی تھی، ودہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے بات چیت ہوئی مگر ہم نے اس کو تاجروں سے منوایا، اڑھائی ہزار ٹیکس دہندگان تھے ۔

23کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے، ود ہولڈنگ 15دن کیلئے 0.4فیصد ہو گیا ہے اور اگلے آنے والے دنوں میں 0.6فیصد بھی ہو سکتا ہے، نان فائلر کی قیمت ہمیں دینی پڑے گی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر خزانہ نے ابھی جو کہا کہ 10لاکھ کی جگہ اڑھائی ہزار لوگوں نے ایمنسٹی اسکیم میں ٹیکس دیا ہے اور ان کے اعداد و شمار کو دوبارہ دیکھنا پڑے گا، اخبارات میں خبر آئی ہے کہ پٹھان کوٹ واقعہ کے پیچھے پاکستان کے لوگ ملوث ہیں اور گوجرانوالہ کے تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے جو یہ ثابت کرتی ہے اس جرم میں پاکستان کے ملوث ہونے کو تسلیم کرلیا ہے، ایک اور اخبار میں مشیر خارجہ کے حوالے سے خبر لگی ہے کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا طالبان اور اس کی قیادت پر اثر ورسوخ ہے اور ان کی فیملی پاکستان میں رہتی ہے اور ان کا یہاں علاج بھی ہوتا ہے اور ریاست ان کوسہولت بھی دیتی ہے۔

مشیر خارجہ کو اس ایوان میں آ کر ان دونوں بیانات پر وضاحت دینی چاہیے، ہمیں حکومت کس طرف لے کر جا رہی ہے۔(اح+ع ح)