سینیٹ کی ذیلی کمیٹی ا طلاعات ونشریات کا اجلاس، 22 سو اخبارات میں 18 سو کے ڈمی ہونیکا انکشاف

300 ڈمی اخبارات کو سینٹرل میڈیا لسٹ سے نکال دیا ،گزشتہ دور حکومت میں ڈمی اخبا ر کو 26کروڑ کے اشتہارات دئیے گئے ، وزارت اطلاعات کے حکام کا انکشاف،صحافیوں کے تحفظ اور فلاح بہبود بل پر غور اگلے اجلاس تک موخر اتنے مجبور یا بے بس نہیں، قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا، قانون سازی کے بعد پیمرا کو بھی شامل کریں گے،مشاہداﷲ اجلاس میں شعر و شاعری کا دور،اراکین اور وزارت اطلاعات حکام نے مشاہد اﷲ خان کو نظمیں سنانے پر داد دی

پیر 29 فروری 2016 19:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 فروری۔2016ء) سینیٹ کی ذیلی کمیٹی ا طلاعات ونشریات کے اجلاس میں وزارت اطلاعات کے حکام نے انکشاف کیا کہ ملک بھر میں 22 سو اخبارات موجود ہیں جن میں 18 سو ڈمی ہیں،300 ڈمی اخبارات کو سینٹرل میڈیا لسٹ سے نکال دیا ،پچھلے دور حکومت میں ایک ڈمی اخبا ر کو 26کروڑ کے اشتہارات دئیے گئے میڈیا مالکان سے ملازمین کی ای او بی آئی کروانے کا کہا ہے، تاحال 6 سو اخبارات نے ملازمین کی ای او بی آئی رجسٹریشن کرائی ہے، کمیٹی کنوینئر مشاہداﷲ خان نے کہا کہ ہم اتنے مجبور یا بے بس نہیں قانون بنے گا تو اپنا راستہ بھی خود بنا لے گا، قانون سازی کے بعد پیمرا کو بھی شامل کریں گے، صحافیوں کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر مالکان نے عمل کرنا ہے، حکومت اپنی ذمہ داری بھی پوری کرے گی و زارت اطلاعات کے حکام نے کہا کہ قانون سازی سے پہلے مشاورت کرنا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

پی ایف یو جے چاروں صوبوں کی صحافتی تنظیموں سے مشاورت کررہی ہے ۔میڈیا مالکان ویج بورڈ کو نہیں مانتے۔ اجلاس میں سینیٹر پروفیسر خورشید احمد اور 21دوسرے سینیٹرز کی طرف سے ایوان بالا میں پیش کردہ صحافیوں کے تحفظ اور فلاح بہبود بل2011 جو 14دسمبر2015ء کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے بھجوایا گیا تھا پر غور اگلے اجلاس تک موخر کر دیا۔اجلاس میں شعر و شاعری کا دوراراکین اور وزارت اطلاعات کے حکام کی کمیٹی کنوئینر مشاہد اﷲ خان کو نظمیں سنانے پر خوب داد ۔

مشاہد اﷲ خان نے کمیٹی اجلاس میں افتخار عارف کی بارہواں کھلاڑی نظم سنائی۔ پیر کو سینیٹ کی ذیلی کمیٹی ا طلاعات ونشریات کے اجلاس میں سینیٹر پروفیسر خورشید احمد اور 21دوسرے سینیٹرز کی طرف سے ایوان بالا میں پیش کردہ صحافیوں کے تحفظ اور فلاح بہبود بل2011 جو 14دسمبر2015ء کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے بھجوایا گیا تھا پر غور اگلے اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔

کنوینر کمیٹی سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ اخباری مالکان کمیٹی کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔مالکان کے اجلاس میں شرکت کے بغیر اخباری ملازمین اور صحافیوں کے مسائل حل کرنا مشکل ہے۔قانون بنانا حکومت کا کام ہے لیکن اے پی این ایس ،سی پی این ای،ای بی اے کمیٹی اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے اور کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اپنے ڈرافٹ کی نوک پلک درست کرنے کیلئے اخباری تنظیموں کے عہدیداران سے مشاورت کریں۔

سیکرٹری وزارت اطلاعات عمران گردیزی نے بتایا کہ اخباری ملازمین کی تنظیموں کے عہدیداران نے چاروں صوبوں کا دورہ کرنے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیلئے ایک ماہ کا وقت مانگا ہے ۔مالکان کو دباؤ میں لانا پڑیگا جن سے کام کراتے ہیں سہولیات بھی دی جائیں۔ ذمہ د اری حکومت پر نہ ڈالی جائے۔سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ ملازمین کا تحفظ اور فلاح عام مسئلے ہیں حل ہونے چاہئیں۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ اخبار مالکان کی کامیابی کا دارومدار بھی ملازمین پر ہے ای او آئی بی کو نہیں مانتے اور قانون پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا ۔سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ ای و آئی بی کو راستہ نکالنے کا کہیں گے کنٹریکٹ ملازمین کو قانون کے مطابق صحت اور مکان وغیرہ کی سہولیات نہیں دی جاتیں۔ ای او آئی بی کے ذریعے سہولیات ملنی چاہیں تاکہ ملازمین کا تحفظ ہو ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پابندی لگائی جائے ورنہ زیادہ تر ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جاتا رہیگا۔سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ قانون خود راستہ اختیار کرتا ہے۔ قانون بننے کے بعد عمل درآمد بھی ممکن ہو جائیگا۔حکومت اپنی ذمہ داری ضرور پورا کریگی۔پہلے مسودہ میں جو چارٹر آف ڈیمانڈ دیاگیا ہے اسے مالکان نے ہی پورا کرنا ہے۔ پی آئی او نے آگاہ کیا کہ ڈمی اخبارات ای او آئی بی کی شرط ہے کہ رجسٹریشن کرائی جائے مالکان نہیں مانتے۔

ہم نے ملازمین کی رجسٹر یشن کی پابندی سے اے بی سی سرٹیفیکیٹ مشروط کر دیا ہے جس سے 600اخبارات کے قریب رجسٹر ہو چکے ہیں۔سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ جعلی اخبارات اور ہفت روزے بند ہونے چاہئیں۔مالکان ویج بورڈ کو نہیں مانتے۔ آئی ٹی این ای کو بھی لفٹ نہیں کرائی جاتی۔سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ قانون موجود ہے۔ مسئلہ عمل درآمد کا ہے۔اجلاس میں سیکرٹری وزارت عمران گردیزی ،پی آئی او راؤ تحسین،ڈی جی پی آئی ڈی ناصر جمال نے شرکت کی

متعلقہ عنوان :