ممتازقادری کو پھانسی دیدی گئی ‘ملک بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ

muhammad ali محمد علی پیر 29 فروری 2016 06:06

ممتازقادری کو پھانسی دیدی گئی ‘ملک بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ

روالپنڈی(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29فروری۔2016ء) سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی سزائے موت پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔جیل حکام کے مطابق ممتازقادری کو اتوار اور پیر کی درمیانی رات پھانسی دی گئی۔پھانسی کے وقت اڈیالہ جیل جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔

ممتاز قادری کی نمازِ جنازہ پیر کی شام چار بجے راولپنڈی میں ادا کی جائے گی اور اس موقع پر احتجاج کے پیشِ نظر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں سے احتجاج کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

(جاری ہے)

راولپنڈی میں مظاہرین نے شہر کو دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کو بند کر دیا ہے اور گاڑیوں پر پتھراو کیا ہے۔

لاہور میں احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی ہے جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جو ملک میں ’ممتاز قادری بچاو مہم‘ چلا رہے تھے۔سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔

پھانسی دینے والے شخص کو خصوصی گاڑی کے ذریعے اتوار کی شب لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ عموماً پھانسی دینے والے جلاد کو دو دن پہلے آگاہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس جیل میں قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہے۔پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے سابق اہلکار مجرم ممتاز قادری گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر تعینات تھے اور انھوں نے چار جنوری 2011 کو اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں سلمان تاثیر کو سرکاری اسلحے سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 2011 میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015 میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔اسی فیصلے کو دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا اور پھر صدر مملکت نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل بھی مسترد کرد ی تھی۔

ممتازقادری کیس کے مختلف مراحل
ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا، ا س نے گورنر کو جنوری 2011ءمیں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔پنجاب کے ا س وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010 میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔

ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ ا نھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ءمیں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت ا±س کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دی جائیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔

عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینج کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اسے بھی خارج کر دیا گیا جب کہ صدر پاکستان نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔

پھانسی کے بعد
پھانسی کے وقت جیل کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ اڈیالہ جیل کی طرف آنے والے تمام راستے بھی سیل کردیے گئے تھے۔

اس موقع پر احتجاج کے پیشِ نظر راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ راولپنڈی میں مظاہرین میٹرو ٹریک پر پہنچ گئے ، بس سروس معطل کر دی گئی ، مظاہرین نے کراچی میں شاہراہ فیصل سٹار گیٹ اور لاہور میں شاہدرہ چوک پر بھی مظاہرے کئے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج شروع ہو گئے۔

راولپنڈی میں مظاہرین نے شہر کو اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کو بند کر دیا اور گاڑیوں پر پتھراو کیا۔ مظاہرین میٹرو ٹریک پر پہنچ گئے جس کے باعث بس سروس معطل کر دی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے فیض آباد چوک پر توڑ پھوڑ بھی کی۔ کراچی میں غریب آباد کے قریب علاقہ مکینوں نے ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کیا اور حسن سکوائر سے لیاقت آباد جانے والی سڑک بند کردی جس کے باعث سٹیڈیم روڈ پر شدید ٹریفک جام ہو گیا۔

لاہور میں بھی احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل ہے ، شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شاہدرہ چوک میں بھی ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ راوی پل پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ راوی پل ٹریفک کیلئے بند کرنے کے بعد ٹریفک کو سگیاں پل اور دوسری سڑکوں کی طرف موڑ دیا گیا۔

حیدر آباد میں ممتاز قادری کی پھانسی کیخلاف سنی تحریک کے کارکنوں نے احتجاج کیا ، کارکنوں نے مختلف علاقوں میں سکول اور دکانیں بند کرا دیں۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جو مبینہ طور پر ملک میں "ممتاز قادری بچاو مہم " چلا رہے تھے۔

پھانسی جوڈیشل قتل قرار
اسلام آباد بارایسوسی ایشن نے ممتازقادری کی پھانسی کو جوڈیشل قتل قراردیتے ہوئے اس کے خلاف ہڑتال کردی ہے ‘اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں پھانسی کو جوڈیشل قتل قراردیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے وکلاءاس کے خلاف مکمل ہڑتال کریں گے اور کوئی بھی وکیل عدالتوں میں پیش نہیں ہوگا