بلوچستان پاکستان کے رقبے کا 45فیصد اور آباد ی کے تقریباً 6 فیصد پر مشتمل ہے، مولانا عبدالحق ہاشمی

تیل ، گیس ، کوئلے ، سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے، امیر جماعت اسلامی بلوچستان عوامی ایجنڈہ کو حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک پہنچایا جائیگا، زیادتیوں کے خلاف مل کر جدو جہد کرینگے ،صوبائی امیر کی پریس کانفرنس

ہفتہ 27 فروری 2016 19:59

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 فروری۔2016ء ) بلوچستان پاکستان کے رقبے کا 45فیصد اور آباد ی کے تقریباً 6 فیصد پر مشتمل ہے ۔ 750 کلومیٹر ساحلی علاقہ اور ایران ، افغانستان سے سینکڑوں کلومیٹر مشترک سرحد ہے۔ تیل ، گیس ، کوئلے ، سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے ۔ صوبے کے دیہی علاقوں میں غربت پاکستان کی اوسط سے تقریباً دگنی ہے ۔

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ و ہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاور تک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے۔ خود سوئی کی 99 فیصد آباد ی اور بلوچستان کی 95 فیصد اس کی روشنی اور تمازات سے محروم ہیں۔ یہ بات جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ،صوبائی جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمان بلوچ ، نائب امیر بشیرا حمدماندائی ،صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالولی خان شاکر نے ہفتہ کے روز الفلاح ہاوس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پانی صرف 23 فیصد آباد ی کو دستیاب ہے باقی انسان اور مویشی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں ۔ مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے جگر ، گردے ، اور دیگر بیماریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ بجلی صوبے کے 12 فیصد علاقوں تک پہنچتی ہے۔ 86 فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے۔ بلوچستان میں بڑی آباد ی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 6554دیہی آبادیاں ہے یہ صوبے کے 76.1 فیصد رقبے پر رہتے ہیں ۔

اورشہری رقبہ 23.9 فیصد بنتا ہے۔ 76.1 فیصد رقبے پر رہنے والے زندگی کے بنیادی سہولتوں تعلیم ، علاج ، روڈ ، پانی اور بجلی سے محروم ہیں۔ اسی طرح صوبے میں بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تعلیم سے محروم بچوں کی سب سے بڑی تعداد بلوچستان میں ہے ۔ جہاں 66 فیصد بچے باقاعدہ تعلیمی ادارے میں نہیں جاتے ۔ بلوچستان کے انفرادی انفراسٹرکچر یہ ہے کہ رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے تعلیم کیلئے بجٹ میں 38 ارب 32 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

صوبائی تعلیمی اداروں کی صورت حال اس حد تک خراب ہے کہ وزرا تعلیم سے لیکر ضلع محکمہ تعلیم کے آفیسر تک اپنے بچوں کو سرکار ی اسکولوں میں پڑھانے کیلئے تیار نہیں ۔ پرائمری تعلیم کی صورت حال مایوس کن ہے ۔ صوبے کے 43 فیصد اسکول بجلی ، 36 فیصد اسکول پانی 35 فیصد اسکول واش روم ، 32 فیصد اسکول چاردیواریوں سے محروم ہیں اور جبکہ 43 فیصد اسکولوں کی عمارتیں اطمینان بخش نہیں ۔

رپورٹ کے مطابق صوبے میں 5 ہزار اسکول بند اور 6 ہزار اسکول سنگل ٹیچرپر چل رہے ہیں۔ صوبے میں صحت کی صورت حال اور زیاد ہ بری ہے کہ پورے صوبے میں سوائے کوئٹہ کے کسی ضلع میں صحت کی سہولیات دستیاب نہیں ہے۔ رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے صحت کا بجٹ پر 15 ارب 48 کروڑ 20لاکھ خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ صحت کے رپورت کے مطابق پورے صوبے میں407 اسپشلسٹ ڈاکٹرز ہیں ۔

لیکن صرف 119 ڈاکٹر ز ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اس وجہ سے وزیر صحت سے لیکر ڈی ایچ او تک کے ذمہ داران اپنے بچوں کاسرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں کراتے ہیں اور دیہی ایریاز میں موجود سول ڈسپینسیرز ، B.H.U کی حالت اوربھی خراب ہے۔ غریب صوبہ جس کے رہنے والے انسانی زندگی کی بنیاد ی سہولتوں سے محروم ہیں وہاں سالانہ سیکورٹی پر 26 ارب روپے خرچ ہور ہے ہیں۔

لیکن پھر بھی عوام الناس کی جان، مال ، عزت و آبرومحفوظ نہیں ، خطیر اخراجات خود سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی اداروں کی حفاظت پر خرچ ہورہی ہے۔ صوبے کا کسان غیر متوازن زرعی پالیسیوں کے باعث قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلاجارہاہے ۔ صوبے کا ساحل 750 کلومیٹر پر مشتمل ہے جہاں لاکھوں لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔وفاق و صوبائی حکومتوں نے ماہی گیروں کے فلاح کیلئے کوئی جامع پالیسی اب تک ترتیب نہیں دی۔

بلکہ ڈیپ سی ٹرالنگ کیلئے آرڈینس کی وجہ سے سمندری حیاتیات کی بڑی تعدا د میں نسل کشی ہو رہی ہے ۔ اور آج لاکھوں ماہی گیر بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اور جبکہ صوبائی حکومت کے اندر موجودوزراء محکمہ فشریز میں موجود افسران ٹرالنگ سے ماہانہ کروڑوں بھتہ وصول کررہے ہیں۔ صو بے میں انفراسٹرکچر بری حالت میں ہے رواں مالی سال میں 50 ارب روپے ترقیاتی کاموں کیلئے رکھے گیے ہیں لیکن بنیادی ڈھانچہ کی ترقی بھی کئی سالوں سے صرف کرپشن کی بنا پر نہیں ہوپاتی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 66 فیصد کرپشن ہوتی ہے۔

کمیشن خوری کا عالم یہ ہے کہ صوبے میں سرکاری تعمیر ذریعے ایک کمرہ 14 لاکھ روپے میں بنتا ہے۔ لیکن عملی طور پر ایک کمرے پر 30 فیصد رقم خرچ ہوتی ہے۔ باقی عوامی نمائندوں ، ٹھیکداروں اور آفیسران کی کمیشن خوری کی نذر ہوجاتی ہے افسوس ناک بات یہ کہ غیر ترقیاتی بجٹ صوبے کی رواں مالی سال میں 160 ارب روپے ہیں اس میں سے تقریباً 50 فیصد حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر خر چ ہوتاہے یہاں کے حکمرانوں وزیراعلیٰ ہاوس ، گورنر ہاوس ، وزراء کے ہاوسز ، بیوروکریسی ، افسران کے طور طریقے، رہن سہن ، طرز زندگی ، شاہانہ اخراجات ، جشن کے پروگرامات اسلام آباد کے حکمرانوں سے کم نہیں ہے۔

جس صوبے کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہوں وہاں یہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ زیب نہیں دیتے۔ صوبہ بلوچستان کے حکمرانوں نے سرکاری ملازمین کے بہبودی فنڈ کو بھی معاف نہیں کیا حکومت بلوچستان بہبودی فنڈ کے 110 ارب کا مقروض ہے ۔ یہ اس صوبے کے داستان ہے جہاں طویل ساحل ہوں سونا چاندی کے وسیع ذخائراور کوئلے کے خزانے کے علاوہ گوادر فورٹ موجود ہے ۔ اس لئے جماعت اسلامی بلوچستان یکم مارچ سے کرپشن سے پاک بلوچستان تحریک کا آغاز کر رہی ہے۔

جس میں صوبے کے اندر کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز کو منظر عام پر لایا جائے گا ۔ عوام الناس کوذیادتیوں سے اور ان کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ صوبہ، اضلاع، یونین کونسل کی سطح پر کرپشن کے خلاف سرگرمیاں طے کی جائیں گی اس موقع پر صوبے کے سیاسی کارکنان ، نوجوانوں ، طلبہ سے خصوصی اپیل ہے کہ کرپشن کے خلاف اس تحریک میں ہمارا ساتھ دیں۔

ان شاء اﷲ یہ تحریک جاریرہیگی جب تک عوام کو بنیادی سہولیات دستیا ب نہیں ہوجاتے ۔ صوبے کے عوام کیاچاہتے ہیں ؟ جماعت اسلامی بلوچستان ایک عوامی ایجنڈا تیاری کر رہی ہے۔ انشاء اﷲ اس عوامی ایجنڈہ کو حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک پہنچایا جائیگا۔ جماعت اسلامی صوبے کے مظلوم ، غریب اوربنیادی سہولیات سے محروم عوام کی نمائندہ آواز بنے گی ۔ ان کے ساتھ مل کر زیادتیوں کے خلاف جدو جہد کریگی