پولیو کا مرض ہماری وجہ سے نہیں خطے میں ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں پروان چڑھا ،عالمی برادری پابندیاں عائد کرنے کی بجائے قابو پانے کیلئے ہمارے ساتھ ہمدردانہ طرز عمل اختیار کرے ‘ ممنون حسین

پسماندہ علاقوں میں خدمات سر انجام دینے والے ڈاکٹرز کیلئے خصوصی پیکج کے تحت تجاویز زیر غور ہیں ،جلد خوشخبری دی جائے گی جس زمانے میں دنیا ہاورڈ یونیورسٹی ، آکسفورڈ اورکیمبرج جیسے ادارے بنا رہی تھی ہمارے حکمران تاج محل ،قطب مینار اور اس جیسی دوسری عمارتیں بنا رہے تھے‘ صدر مملکت کا عذرا ناہید میڈیکل کالج کی تقریب سے خطاب

جمعہ 26 فروری 2016 19:24

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 فروری۔2016ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پولیو کا مرض پروان چڑھنے کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ یہ خطے میں ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں پروان چڑھا ،عالمی برادری سے اپیل ہے کہ وہ ہم پر پابندیاں عائد کرنے کی بجائے اس مرض پر قابو پانے کیلئے ہمارے ساتھ ہمدردانہ طرز عمل اختیار کرے ،پسماندہ علاقوں میں خدمات سر انجام دینے والے ڈاکٹرز کیلئے خصوصی پیکج کے تحت تجاویز زیر غور ہیں اور اس حوالے سے جلد خوشخبری دی جائے گی، اولین دور میں ہمارے کچھ محققین اور اسکالرز نے طب کے شعبے میں تحقیق اور دوسرے کام کئے لیکن بعد میں جس زمانے میں دنیا رائل کالج آف فزیشنز ،ر ائل کالج آف سرجن ،ہاورڈ یونیورسٹی ، آکسفورڈ اورکیمبرج جیسے ادارے بنا رہی تھی ہمارے حکمران تاج محل ،قطب مینار اور اس جیسی دوسری عمارتیں بنا رہے تھے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں عذرا ناہید میڈیکل کالج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے طبی روابط بہت پر انے ہیں جن کی ایک شکل صدیوں پرانے رائل کالج آف فزیشنزکے پاکستانی معالجین کے استفادے کی ہے ۔ہمارے تعلق کا دوسرا پہلو اس سے بھی پرانا ہے جو طبی تعلیم و تحقیق کا ورثہ ہے جو مسلمان علماء او رحکماء کی کئی صدیوں کی عر ق ریزی کی نتیجے میں وجود میں آیا جس سے رائل کالج کے بانیوں اور دیگر قدیم اداروں نے فیض اٹھایا ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے علمی رشتے اب بھی بر قرار ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط بھی ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز آج بھی رائل کالج سے تعلیم اور ڈگر ی کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ اس کا بہترین تعلیمی معیار او رساکھ ہے جو اس ادارے نے صدیوں کی محنت سے بنائی ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ ہر عہد میں انکی اہمیت بر قرار رہتی ہے او رلوگ رنگ و نسل اور علاقے کی تفریق سے بالا تر ہو کرایسے اداروں پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان میں طبی تعلیم مروجہ عالمی معیار سے ہم آہنگ ہے ۔نجی شعبے کی آمد کے بعد صورتحال میں مزید بہتیر آئی ہے جس پر خوشی ہے لیکن چند پہلو ایسے ہیں جن پر اب بھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔دور دراز کے علاقوں میں ابتدائی طبی سہولتیں اب بھی بآسانی دستیاب نہیں ۔ اسی طرح ہمارے بڑے شہروں کے مضافات میں رہنے والے لوگ حفظان صحت کے اصولوں سے پوری طرح واقف نہیں اورکھانے پانے کی فروغ پاتی ہوتی غیر مقامی عادات سے ایسے طبی مسائل اورامراض میں اضافہ ہو رہا ہے جن کا وجود یہاں تھا ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر تھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں صحت عامہ کے مسائل پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک حفظان صحت کے اصولوں کو عام کر کے لوگوں کو اس کا عادی نہ بنایا جائے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک سول سوسائٹی ،ڈاکٹرز اور طبیب حکومت کا ہاتھ نہ بٹائیں کامیابی ممکن نہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے طبی ادارے عالمی تحقیقی اداروں او ردنیا کی ممتاز جامعات کے ساتھ تعان کے معاہدے کریں تاکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے تجربات سے پاکستان میں بھی استفادہ کیا جا سکے اس سلسلہ میں نجی شعبہ حکومت سے مفید تعاون کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے دور دراز او پسماندہ علاقوں میں طبی سہولتوں کی عدم دستیابی ایک پرانا مسئلہ ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ڈاکٹر ز صاحبان نہ صرف ایسے علاقوں میں جانا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے آبائی علاقوں سے بھی نقل مکان کر کے بڑے شہروں میں پہنچ جاتے ہیں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پسماندہ علاقوں میں پریکٹس یا ملازمت کی صورت میں وہ اپنے ضروری اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے ۔

اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے بعض تجاویز حکومت کے زیر غور ہیں ۔ پسماندہ علاقوں میں خدمات سر انجام دینے والے ڈاکٹرز کو خصوصی پیکج دئیے جانے چاہئیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں آپ جلد اچھی خبریں سنیں گے۔ پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹروں کے نہ جانے کی وجہ انفراسٹر اکچر کی کمی ہے او رحکومت اس مسئلے پر بھی توجہ دے رہی ہے لیکن اس صورتحال میں حکومت کے ساتھ نجی شعبے پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصلاح احوال کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔

ترقی یافتہ ممالک میں ان معاملات کے حل کے لئے بہت تجربات کئے گئے ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔مجھے خوشی ہو گی کہ اس کانفرنس میں ان پہلوؤں پر بھی توجہ دی جائے گی ۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ رائل کالج آف فزیشنز نے ایم آر سی بی کے سال حصہ اول اوردوم کے امتحانات پاکستان میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیاہے جو بہت مثبت او رخوش آئند فیصلہ ہے ۔

میں چاہتا ہوں کہ کلینیکل امتحانات بھی پاکستان میں منعقد کئے جائیں جس سے اس فیصلے سے زیادہ مثبت اثرات سامنے آ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں آ پ کی توجہ پولیو اور اس کے سلسلہ میں عائد کی کی جانے والی پابندیوں کی طرف مبذول کراناچاہتا ہوں کہ یہ مرض خطے میں ہونے والی جنگوں کی نتیجے میں پروان چڑھا جس کے ذمہ دارہم نہیں لیکن ان جنگوں کے نتائج پولیو جیسے امراض پر قابو پانے کے لئے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے پابندیاں عائد کر دی گئیں اوریہ مناسب نہیں ۔

میں عالمی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پولیو پر قابو پانے کے لئے ہمارے ساتھ ہمدردانہ طرز عمل اختیار کرے ۔ آپ لوگوں کو عالمی فورم پر جانے کے مواقع ملتے ہیں آپ پاکستان کے حق میں آواز بلند کریں ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ یہ حقیقت ہے کہ اولین دور میں ہمارے کچھ محققین اور اسکالرز نے طب کے شعبے میں تحقیق اور دوسرے کام کئے ہیں لیکن بعد کا زمانہ ایسا رہا جس زمانے میں رائل کالج آف فزیشنز او رر ائل کالج آف سرجن بن رہے اور دوسرے ادارے بن رہے تھے ،دنیا ہاورڈ یونیورسٹی ، آکسفورڈ اورکیمبرج جیسے طبی ادارے بنا رہی تھی ہمارے حکمران تاج محل ،قطب مینار اور اس جیسی دوسری عمارتیں بنا رہے تھے اور یہ ہماری تاریخ کا حضہ ہے ۔

ہم ہمیشہ جب تاریخ کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ہم اس سے سبق حاصل کریں جو قومیں صرف تاریخ کو اس لئے یاد رکھتی ہیں ان سے جو غلطیاں ہوئی ہیں انہیں ٹھیک کریں اور دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں وہی قومیں آگے بڑھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اور بھی دشواریوں کا شکار رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں طب کا شعبہ بھی خرابیوں کا شکار ہوا اورکوئی بھی شعبہ نہیں بچا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ایسی بہت سے روایتیں نظر آتی ہیں کہ وہ بہت قابل افسوس ہیں۔

متعلقہ عنوان :