سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس نے سیب کی درآمد پر یکساں35فیصد ڈیوٹی لگانے کی سفارش کر دی

سبزیاں اور فروٹ کی درآمد پر مضر صحت سے پاک سرٹیفیکیٹ کا حصول لازمی قرار دیا جائے،وزارت داخلہ اور متعلقہ ادارے اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائیں،قائمہ کمیٹی

جمعہ 26 فروری 2016 19:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 فروری۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کامرس کااجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹرسید شبلی فراز اور رکن کمیٹی سینیٹر حاصل خان بزنجو کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کے سینیٹ سے بھیجے گیا معاملہ جو ایران سے مختلف سبزیاں اور فروٹ کی درآمد سے مقامی کسانوں اورزمینداروں پر ہونے والے منفی اثرات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹرمیر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ یہ مسئلہ پہلے بھی اٹھایاگیاہے ۔یہ بلوچستان کے زمینداروں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہاں کی عوام پچھلے دس سال سے اس وجہ سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔بلوچستان میں پانی کی زیر زمین سطح بہت نیچے گر گئی ہے بجلی نہیں ہے کھاد مہنگی ہے ڈیزل و دیگر اخراجات ذیادہ ہونے کی وجہ سے لاگت پیدائش ذیادہ ہے جبکہ ایرانی حکومت نے اپنے کسانوں اور زمیند اروں کو بہت سی سہولیات فراہم کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کی لاگت پیدائش بہت سستی ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا اور چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے مسئلے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے اسے سینیٹ کی دو قائمہ کمیٹیوں کو جائزہ لینے کیلئے بھیجا ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے زمینداروں کے وفدنے بھی مسائل بارے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے زمیندار مشکلات کا شکار ہیں۔حکومت پاکستان ان کی مدد کرنے کی بجائے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہی ہے ملک کے کسان و زمیندار تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔

ملک کے شہروں میں ایرانی سیب کی بھرمار ہے اور پچھلے سال کی نسبت اس سال ذیادہ سیب درآمد کیا گیا ہے۔بلوچستان میں45لکھ درخت خشک ہو چکے ہیں۔ترکمانستان کا مال بھی پاکستان میں ہمسایہ ممالک کے راستے سے داخل ہو رہا ہے۔یہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ایران نے ہمارے کینو اور چاول کی برآمد پر بین لگارکھا ہے۔جس پر سیکرٹری کامرس نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ حکومت اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے وفاقی وزیر او ر متعلقہ اداروں کے ساتھ اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔

اسمگلنگ کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رے ہیں۔انسپکٹر کی ڈیوٹی اب بارڈر پر بھی لگا دی گئی ہے اور درآمد پر 35فیصد ڈیوٹی لگائی گئی ہے جس پر رکن کمیٹی سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ افغانستان سے اسمگلنگ بہت ذیادہ ہو رہی ہے جب تک اس کو نہیں روکا جائے گا معاملات میں بہتری نہیں آٗئیگی۔ کسٹم حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کے ذریعے جو چیزیں درآمد کی جاتی ہیں وہ قانون کے تحت آرہی ہیں اور اسمگلنگ کو اکیلا کسٹم نہیں روک سکتا اتنا عملہ نہیں کہ پورے بارڈر کو کنٹرول کیا جا سکے۔

اور ایران کی طرف سے بارڈر کے پاس سڑکیں ہیں مگر ہماری طرف سے کوئی سٹرکچر نہیں ہے۔سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ تورخم او رکراچی پر ڈیوٹی میں ا ضافہ کیا جائے اور سیب ،کھجور ،ٹماٹر،انگوراور پیاز کی غیر قانونی درآمد کو روکا جائے۔جس پر قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وزارت داخلہ کو سمگلنگ کی روک تھام روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے اور متعقلہ اداروں کو متحرک کرنے کے حوالے سے لکھا جائے۔

اور سیب کی درآمد پر یکساں ڈیوٹی 35فیصدعائد کی جائے۔اورفروٹس اور سبزیوں درآمد کیلئے سرٹیفیکیٹ کا حصول بھی لازمی بنایا جائے۔سینیٹر میر کبیر احمد نے کہا کہ ہمارے صوبے کا نہایت اہم مسلہ ہے وفاقی وزیر برائے کامرس اور نیشنل فوڈ سیکورٹی کے حکام کو اجلاس میں شرکت کرنی چایئے تھی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ پیپر پرنٹنگ کے ایک وفد نے آج کی سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کیا ہے اور یہ اس کمیٹی سے متعلق ہے تو ان کے وفد سے مسائل بارے آگاہی حاصل کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کو وفد کے حکام نے بتایا کہ پاکستان میں کتابوں کی درآمد پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہے جبکہ پیپرز کی درآمد پر ڈیوٹی ہے جس کی وجہ سے پرنٹنگ کی صنعت تباہی کا شکار ہو رہی ہے۔لوگ بیرون ممالک سے کتب پرنٹ کروا کر پاکستان میں درآمد کر رہے ہیں۔حکومت کو مقامی صنعت کو فروغ دینا چاہئے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری کامرس کی سربراہی میں ایف بی آر اور صنعت کے لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کو رپورٹ جمع کرانے کی سفارش کر دی۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز مفتی عبد الستار،حاصل خان بزنجو،محمد عثمان خان کاکڑ،سلیم مانڈوی والا،روبینہ خالد،حاجی سیف اﷲ خان بنگش،میر کبیر احمد محمد شاہی،کے علاوہ سیکرٹری کامرس محمد شہزاد ارباب ،کسٹم حکام اور بلوچستان کے زمینداروں کے وفد کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :