سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور غداری کے مقدمے میں سابق چیف جسٹس، سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر قانون کو شریک ملزم قرار دینے کے اعلی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 26 فروری 2016 12:24

سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور غداری کے ..

اسلام آباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26فروری۔2016ء) سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور غداری کے مقدمے میں ملک کے سابق چیف جسٹس، سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر قانون کو شریک ملزم قرار دینے کے اعلی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ آئین شکنی کے مقدمے میں کسی شخص کو شامل کرنے کا اختیار وفاق کو ہے عدالت کو نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی درخواست پر یہ فیصلہ سنایا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سابق فوجی صدر پرویز مشرف آئین شکنی کے مقدمے میں واحد نامزد ملزم رہ گئے ہیں۔عبدالحمید ڈوگر کی طرف سے آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے آئین شکنی کے مقدمے میں شریک ملزم قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک آئین شکنی کے مقدمے کی عدالتی کارروائی کو نہیں روکا جاسکتا۔عدالت عظمی نے خصوصی عدالت کو اس مقدمے کا ٹرائیل جلد از جلد مکمل کرنے کا حکم بھی دیا۔جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی درخواست پر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شریک ملزم قرار دینے کا حکم دیتے ہوئے وفاق کو اس مقدمے کی نئی درخواست داخل کروانے کا حکم دیا تھا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کو پہلے سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کے بعد ملزم پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ بھی کرتا رہا ہے۔خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس میں وفاق نے موقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ اس مقدمے کی تفتیش ٹھیک طریقے سے نہیں ہوسکی تھی اس لیے اس وہ اس مقدمے کی دوبارہ تفتیش کرنے کو تیار ہیں۔

عبدالحمید ڈوگر اور سابق وفاقی وزیر زاہد حامد نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم بعد ازاں ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔دوسری جانب ملزم پروز مشرف کے وکیل نے اپنے موکل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق فوجی صدر کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا ناگزیر ہے اس لیے ا ن کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بھی لال مسجد کے سابق نائب خطیب عبدالرشید غازی کے قتل کے مقدمے میں ملزم پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں اور پولیس کو ملزم کو 16مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دے رکھاہے۔