لاہور ہائیکورٹ میں بچوں کی حوالگی کے مقدمے کی سماعت کے بعد تینوں بچوں کا ماں کے ہمراہ جانے سے انکابچوں نے رو رو کر برا حال کر لیا۔عدالت نے میاں بیوی کو مصالحت کا موقع دیا تاہم میاں بیوی نے اکٹھے رہنے سے صاف انکار کر دیا۔

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعرات 25 فروری 2016 14:48

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔25 فروری۔2016ء) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد نے کیس کی سماعت کی۔اوکاڑہ کی رہائشی بانو نامی خاتون نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس کے خاوند نے اسے لڑائی جھگڑے کے بعد گھر سے نکال دیا اور بچوں کو اپنی غیر قانونی تحویل میں رکھا ہے۔خاتون نے عدالت سے استدعا کی کہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کے بچے واپس دلائے جائیں۔

(جاری ہے)

کمرہ عدالت میں موجود خاتون کے تینوں بچوں نے رونا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ نہیں جانا چاہتے ،،انکی والدہ انہیں خود چھوڑ کر گئی تھی۔جس پر عدالت نے بانو اور اسکے خاوند رمضان کو بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مصالحت کا موقع دیتے ہوئے انہیں سوچ و بچار
کرنے کی ہدائت کی۔عدالتی حکم کے باوجود دونوں میاں بیوی نے اکٹھے رہنے سے صاف انکار کر دیا جس پر عدالت نے تینوں بچوں کو باپ سے لے کر ماں کے حوالے کر دیا۔عدالتی فیصلے کے بعد تینوں بچوں اپنے باپ سے لپٹ کر روتے رہے جبکہ ماں کے ساتھ نہ جانے کی منتیں سماجتیں کرتے دکھائی دئیے۔