دنیا بھر میں ہر سال 800 ملین انسان بھوک کا شکار رہتے ہیں جبکہ صرف جرمنی میں

ہر سال 20 ملین ٹن غذائی اشیاءکوڑے دانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ رومن کیتھولک تنظیم کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 25 فروری 2016 12:27

دنیا بھر میں ہر سال 800 ملین انسان بھوک کا شکار رہتے ہیں جبکہ صرف جرمنی ..

برلن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25فروری۔2016ء) دنیا بھر میں ہر سال 800 ملین انسان بھوک کا شکار رہتے ہیں تو دوسری جانب صرف جرمنی میں ہر سال 20 ملین ٹن غذائی اشیاءکوڑے دانوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ رومن کیتھولک چرچ کی جرمنی میں قائم سب سے بڑی امدادی تنظیم Misereor نے حال ہی میں وفاقی جرمن حکومت کے ایکشن پلان پر غیر معمولی زور دیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت اجاگر کی کہ غذا کے ضیاع پر کنٹرول کیا جائے اور دنیا سے بھوک کا خاتمہ ممکن بنانے کی کوشش کی جائے۔

اس سلسلے میں چند لازمی اہداف مقرر کیے جانے چاہیں۔ 2020ءتک غذاءکے ضیاع میں کم از کم 50 فیصد کی کمی کا ہدف طے کرنے پر زور دیا گیا ہے۔جرمنی کے وفاقی وزیر زراعت کرسٹیان شمِٹ ڈھیٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں پائی جانے والی غربت اور بھوک کو مختلف خطوں کی طرف رواں مہاجرین کے سیلاب کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

جرمن وزیر نے اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا اس وجہ سے میں غذا کے حصول کے بنیادی حق کو بین الاقوامی قوانین میں شامل کرنے کی وکالت کرتا ہوں اور ایک ایسی بین الاقوامی زرعی تجارت کی حمایت کرتا ہوں، جو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو مدِنظر رکھے۔

وفاقی جرمن وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ پیداواری اور پائیدار زراعت ہی سیاسی استحکام کے لیے فیصلہ ک±ن عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔بچوں کی امداد کے ادارے ’ ورلڈ ویژن‘ کا کہنا ہے کہ بھوک ہی دراصل دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے جہاں وہ اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر دیکھتے ہیںاور بھوک ہی مختلف تنازعات کی بھی وجہ بنتی ہے۔

’ ورلڈ ویژن‘ جرمنی کے صحت کے امور کے ماہر مارون مائیر کا کہنا ہے بھوک ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل موجود ہے۔ جب کوئی بچپن میں ہی کم خوراکی یا نامناسب غذا کا شکار ہو تو وہ اپنی آئندہ کی زندگی میں بھی جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور اور گوناگوں بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔

متعلقہ عنوان :