خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کیخلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی

بل کے ذریعے کسی بھی عمر کی خاتون کو کسی بھی قسم کے تشدد سے تحفظ دیا جاسکے گا،قانون پر عملدرآمد کا نظام بھی بل میں دیا گیا ہے ہر ضلع میں وائلنس ایگنسٹ ویمن سینیٹرزبنائے جائیں گے ،جنوبی ایشیا کے پہلے ایسے سینٹر ہیں جہاں تمام متعلقہ ادارے ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہونگے وزیراعلی کے امن وامان سے متعلق خصوصی مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ کی گفتگو

بدھ 24 فروری 2016 21:20

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔24 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہونے والے مسودہ قانون خواتین کا تشدد سے تحفظ پنجاب 2015ء کے مطابق خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کیخلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی۔اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔

پنجاب اسمبلی سے پاس کئے جانے والے مسودہ قانون کے مطابق پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں۔

(جاری ہے)

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے۔تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکے گا۔

عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی اور ان کو ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے چھ ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائے گی۔مسودہ قانون کے مطابق ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔

اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔نئے قانون کے مطابق مانیٹری آرڈرکے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی۔

مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔مسودہ قانون کے مطابق عدالت ذیلی دفعہ (1)کے تحت آرڈر جاری کرنے سے پہلے پارٹیوں کی مالی ضروریات او ر وسائل کا مناسب خیال رکھے گی ۔ متعلقہ شخص تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کو ذیلی دفعہ (1)کے تحت جاری آرڈر میں مختص مدت کے اندر اندر مالی ریلیف ادا کرے گا۔

اگر وہ مقررہ مدت کے اندر اند ر ادائیگی میں ناکام رہتا ہے تو عدالت متعلقہ شخص کے آجر یا قرض خواہ کو ہدایت جاری کرے گی کہ متاثرہ خاتون کو براہ راست ادائیگی کرے یا اجرت یا قابل ادا قرض کا وہ حصہ عدالت میں جمع کرائے جو تشد د کرنے والے متعلقہ شخص کے کریڈت میں ہے ۔ ذیلی دفعہ (4)کے تحت ادا کی گئی یا جمع کردہ رقم آجر یا قرض خواہ کی جانب سے متعلقہ شخص کو ادائیگی کے طور پر ایڈیش کی جائے گی ۔

عدالت ہدایت دے سکتی ہے کہ شیلٹر ہوم میں شیلٹر فراہم کرنے کی غرض سے قابل ادا یا ادا کئے گئے مانیٹری ریلیف کی خاطر رقم پروٹیکشن سسٹم میں جمع کرائی جائے ۔حکومت متاثرہ خواتین کے تحفظ کے لئے ایک مرحلہ وار پروگرام کے ذریعے پروٹیکشن سنٹرز اور شیلٹر ہومز قائم کرے گی ۔قانون ہذا کے تحت تنازعات کے حل کے لئے ثالثتی اور مصالحت کا ایک موثر سسٹم قائم کیا جائے گا ۔

متاثرہ خاتون یا دیگر ضرورتمند خواتین کے ساتھ زیر کفالت بچوں کو شیلٹرز اور دیگر متعلقہ ضروریات فراہم کرے گا ۔ رہائشیوں کی ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کا اہتمام کرے گا۔ مسودہ قانون کے مطابق ضلعی افسر تحفظ خواتین یا افسر تحفظ خواتین متاثرہ خاتون کو بچانے کی غرض سے کسی بھی وقت ، کسی بھی جگہ یا گھر میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن ایسا افسر یا اہلکار متاثرہ خاتون کو اس کی مرض کے خلاف وہاں سے نہیں نکالے گا ۔

مسودہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص جو ضلعی افسر تحفظ خواتین یا افسر تحفظ خواتین سے قانون ہذا کے تحت فرائض کی ادائیگی میں مزاحمت کرے تو وہ چھ ماہ تک سزائے قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا مستوجب ہوگا ۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیراعلی کے امن وامان سے متعلق خصوصی مانیٹرنگ یونٹ نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر یہ بل تیار کیا ہے۔

مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی کا دعوی ہے کہ قانون میں پروٹیکشن ریزیڈنس اور مانیٹری آرڈرز کے تحت تحفظ دینے کے لیے ایک پورا نظام بنایا گیا ہے اور کسی بھی عمر کی خاتون کو کسی بھی قسم کے تشدد سے اس بل کے ذریعے تحفظ دیا جاسکے گا۔ اس قانون پر عملدرآمد کا نظام بھی بل میں دیا گیا ہے۔اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلع میں وائلنس ایگنسٹ ویمن سینیٹرزبنائے جارہے ہیں۔

یہ جنوبی ایشیا کے پہلے ایسے سینٹر ہیں جہاں تمام متعلقہ ادارے ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہوں گے۔ جیسے پولیس پراسیکیوشن ،فرائنزک ،میڈیکولیگل ،ماہر نفسیات اور شیلٹر ہوم وغیرہ۔اس قانون کے تحت خواتین کے تحفظ کے لیے ضلعی کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔ جو تمام سینٹرز میں شکایات کے اندراج کی نگرانی کریں گی اور یقینی بنائیں گی کہ پولیس تمام حقیقی شکایات کے مقدمات درج کرے۔

انہوں نے کہا کہ غلط شکایت ثابت ہونے پر چھ ماہ سے ایک سال تک سزا ہوسکے گی۔ لیکن ہم نے جو سینٹرز اور کمیٹیاں بنا رہے ہیں اس سے غلط شکایتوں کا جلد پتہ لگایا جاسکے گا اور صرف حقیقی شکایتیں ہی سامنے آسکیں گی۔اس سے پہلے پنجاب میں خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کے لیے کوئی ایسا قانون موجود نہیں تھا۔ اس وقت خواتین کے خلاف تشدد پر سزا ئیں سی پی آر سی کے وفاقی قانون کے تحت دی جارہی ہیں۔

متعلقہ عنوان :