پنجاب اسمبلی کے ایوان نے خواتین کو تشدد سے تحفظ کے بل کی متفقہ طور پر منظوری دیدی ،اپوزیشن نے ترامیم واپس لے لیں

عبوری ، پروٹیکشن ، ریذیڈینس ، مانیٹری آرڈرز کی ایک سے زائد مرتبہ حکم عدولی پر دو سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا مسودہ قانون(ترمیم ) جنگلات پنجاب 2015،مسودہ قانون ( ترمیم )پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی پنجاب2015ء کثرت رائے سے منظور

بدھ 24 فروری 2016 21:20

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔24 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے ایوان نے خواتین پر تشدد کیخلاف ’’ مسودہ قانون خواتین کا تشدد سے تحفظ پنجاب 2015ء ‘‘ سمیت تین بلوں کی منظوری دیدی، اپوزیشن کی طرف سے خواتین پر تشدد کے خلاف بل میں جمع کرائی گئی ترامیم واپس لینے کے بعد بل کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی ، قانون کے اطلاق کیلئے حکومت متاثرہ خواتین کیلئے یونیورسل ٹال فری نمبرز کا اجراء اور مرحلہ وار پروگرام کے تحت تحفظ سنٹر اور دارالاما قائم کئے جائیں گے،متاثرہ خاتون کو اسکی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا ، عدالت متاثرہ خاتون کے حق میں پروٹیکشن آرڈر جاری کر سکتی ہے ،سنگین تشدد کی صورت میں عدالت کے حکم پر متعلقہ شخص کوجی پی ایس ٹریکر لگے گا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دس بجے کی بجائے پچاس منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اﷲ خان نے ایوان میں بل پیش کئے ۔ محکمہ جنگلات کے بارے میں آرڈیننس کو قانون شکل دی گئی ۔اس بل کی منظوری کے بعد اب حکومت کمپنیز آرڈیننس 1984(47) کے تحت تفویض کردہ فاریسٹ لینڈ یا ویسٹ لینڈ پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے عمل درآمد کی نگرانی کے لئے ’’فاریسٹ کمپنی کا قیام عمل میں لانے کی مجاز ہے۔

اس بل کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے دو ترامیم جمع کرائی گئی تھیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا اورمسودہ قانون(ترمیم ) جنگلات پنجاب 2015کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ایوان نے ’’مسودہ قانون (ترمیم)پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی، پنجاب2015ء بل کی بھی کثرت رائے سے منظوری دیدی ۔ایوان نے ’’مسودہ قانون خواتین کا تشدد سے تحفظ پنجاب 2015ء ‘‘بل متفقہ طور پر منظور کیا ، اپوزیشن نے اس بل میں جمع کرائی گئی اپنی ترامیم واپس لے لیں۔

مسودہ قانون کے مطابق سنگین تشدد کی صورت میں میں عدالت کے حکم پر متعلقہ شخص کوجی پی ایس ٹریکر لگے گا ۔ متاثرہ خاتون کے پیش کردہ مواد کی بنا پر عدالت متعلقہ شخص کو خاتون سے رابطے سے روک سکتی ہے ۔ متعلقہ شخص کو متاثرہ خاتون سے اتنا دور رہنا ہوگا جتنا عدالت واقعات کے تناظر میں حکم دے گی ۔ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا ۔

اگر ناجائز بے دخل کر دیا گیا ہو تو عدالت متاثرہ خاتون کو پہلی والی حالت پر بحال کر دے گی ۔ گھریلو تشدد کے مرتکب شخص کو آتشیں ہتھیار یا اسلحہ سے دستبر دار ہونا ہوگا ۔ عدالت متاثرہ خاتون کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لئے ریلیف فراہم کرنے کا آرڈر کرسکتی ہے ۔ ڈومیسٹک وائلنس کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو کلائی بریسلیٹ جی پی ایس ٹریکر نہیں لگے گا ۔

تشدد کی غلط اطلاع دینے پر تین ماہ تک قید یا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں ۔ جی پی ایس ٹریکر کو مقررہ مدت سے پہلے ہٹانے پر ایک سال تک قید یا پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا ۔ عبوری ، پروٹیکشن ، ریذیڈینس ، مانیٹری آرڈرز کی ایک سے زائد مرتبہ حکم عدولی پر دو سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا ۔

ڈسٹرکٹ پروٹیکشن آفیسر کو متاثرہ خاتون کی شکایت پر گھر داخل ہونے کی اجازت ہوگی ۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے دو بار کورم کی نشاندہی کی گئی اوردونوں بار کورم پورا ہونے کے بعد حکومتی اراکین ’’بھگوڑے ٹھاہ‘‘،’’ کنٹینر ٹھاہ ‘‘ کے نعرے لگاتے رہے ۔قبل ازیں پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ زراعت کی طرف سے سات سوالات کے جوابات نہ دیئے جانے پر انہیں موخر کر دیا گیا جبکہ محکمہ صنعت کے بارے میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر صنعت طوہدری محمد شفیق نے کہا کہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، بہاولپور میں نئی انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی جا رہی ہیں ان پر کام 15مارچ2016کے بعد شروع کردیا جائے گا۔

پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی جہاں ضرورت محسوس کی گئی انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں گے۔زراعت کے وزیر کی مصروفیت کی وجہ سے ان کے محکمہ کے سوالات موخر کردئے ۔ تاہم ایجنڈے میں اس محکمہ کے7سوالات تھے لیکن ان ساتوں سوالوں کے جوابات نہیں دیئے گئے تھے جس پر ممبران اسمبلی کی طرف سے محکمہ زراعت کے خلاف شدید احتجاج کیا اور سپیکر نے ان سوالوں کو موخر کردیا۔