سپریم کورٹ، خصوصی عدالت کے حکم کیخلاف عبدالحمید ڈوگر کی اپیل پر فیصلہ محفوظ

پرویز مشرف نے ججز کے ساتھ جو کیا اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے، انصاف کریں گے، ایمرجنسی نافذ کرنے والے نے "میں" کا لفظ استعمال کیا،جسٹس آصف سعید کھوسہ

بدھ 24 فروری 2016 17:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔24 فروری۔2016ء ) سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی خصوصی عدالت کے حکم نامے کے خلاف اپیل کی سماعت پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں بنچ نے بدھ کو مقدمے کی سماعت کی۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ پرویز مشرف نے ججز کے ساتھ جو کیا اس پہ کوئیتبصرہ نہیں کرتے انصاف کریں گے۔

چند روز میں فیصلہ دیں گے تاخیر نہیں کرینگے۔ جن لوگوں کو تین نومبر کے اقدام کے بعد فائدہ ملاان کے بارے میں یہ کیسے فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے منصوبے میں شامل تھے ایمرجنسی نافذ کرنے والے نے "میں" کا لفظ استعمال کیا۔ عبدالحمیدڈوگر کے وکیل فروغ نسیم پیش ہوئے اور انھوں نے دلائل میں موقف اختیارکیا کہ خصوصی عدالت کا حکم کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتا،خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل یا رٹ ناقابل سماعت ہے خصوصی عدالت کا فائنل فیصلہ ہی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے اس پر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاکہ ہائی کورٹ نے عبدالحمید ڈوگر،زاہد حامد، شوکت عزیز کو شریک ملزم بنانے کا حکم کالعدم قرار دے کر دوبارہ تحقیقات کا حکم تمام فریقین کی مرضی سے جاری کیا۔

(جاری ہے)

خصوصی عدالت نے 27نومبر2015کو دوبارہ 3 افراد کے نام شریک مشتبہ افراد میں شامل کر دئیے۔خصوصی عدالت نے کس بنیاد پر 3 افراد کے نام دوبارہ شامل کیے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ایمرجنسی کے نفاذ کی سمری سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھیجی سمری سے پہلے شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو خط لکھا اس پر جسٹس آصف سعید نے کہاکہ معلوم نہیں وہ خط تین نومبر کے اقدام سے پہلے لکھا گیا یا بعد میں۔

لکھے گئے خط میں صدر کو نہیں آرمی چیف کو مخاطب کیا گیا۔فاضل وکیل نے بتایاکہ خط کے بعد بھیجی گئی سمری کو غائب کر دیا گیا۔ سابق چیف کو اعتراض تھا تو ہائیکورٹ میں دوبارہ تحقیقات کرانے کے معاملہ پر رضامندی نہ دیتے۔سابق چیف جسٹس تین نومبر کے اقدام سے مستفید ہوئے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ رضامندی شائد اس لیے دی ہو کہ میرا نام نکل جائے۔ خصوصی عدالت نے نام پھر شامل کر دیا گیا،جن لوگوں کو تین نومبر کے اقدام کے بعد فائدہ ملاان کے بارے میں یہ کیسے فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے منصوبے میں شامل تھے ایمرجنسی نافذ کرنے والے نے "میں" کا لفظ استعمال کیا۔

عدالت یہ موقف مسترد کر چکی ہے ایمرجنسی سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہوئی،اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفتیش کا حکم برقرار رہے اور بطور شریک ملزم نامزدگی نکال دی جائے۔؟ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ یا خصوصی عدالت دوبارہ تفتیش کا حکم دینے کا اختیار رکھتی ہے؟ قانون میں ٹرائل روکنے کی کوئی قانونی شق موجود نہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں خود کہا کہ مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی کے دستاویزات پر دستخط کیے۔

اس پر فروغ نسیم نے کہاکہ ابراہیم ستی نے بعد ازاں پریس کانفرنس کی اور اپنے بیان کی تردید کی۔ وفاق کو تفتیش کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے وہ جس کو چاہے شامل تفتیش کرے۔ اس پر جسٹس کھوسہ نے کہاکہ پرویز مشرف نے ججز کے ساتھ جو کیا اس پہ کوئی تبصرہ نہیں کرتے انصاف کریں گے چند روز میں فیصلہ دیں گے تاخیر نہیں کرینگے