پٹھان کوٹ واقعہ کامقدمہ قومی سلامتی کے تمام اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ ،سفارشات کی روشنی میں درج کیا گیا ‘ پرویز رشید

احتساب کے عمل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی لیکن احتساب کے عمل کو ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی ڈاکٹر احسن اختر ناز کے انتقال پرمنعقدہ تعزیتی ریفرنس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 20 فروری 2016 18:14

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔20 فروری۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ پٹھان کوٹ واقعہ کاپاکستان میں مقدمے کا اندراج اس معاملے پر بنائی گئی قومی سلامتی کے تمام اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کی روشنی میں درج کیا گیا ہے ، پاکستان نے یہ اقدام کرکے نہ صرف خود کو اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں سے بچایا ہے بلکہ اس سے دنیا میں پاکستان کی عزت اور احترام میں اضافہ ہوگا ،دنیا کو اعتماد ہوگا کہ پاکستان مسائل کا نہیں بلکہ ان کے حل کا حصہ ہے ،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کونیب کے طریق کار پر تحفظات ہیں ،اس معاملے کا اب قومی سطح پر ذکر شروع ہو چکا ہے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے تمام منتخب قیادت کے مشورے سے اور ان کی تجاویز کی روشنی میں کئے جائیں گے تاکہ قباحتوں کو ختم کیا جا سکے،احتساب کے عمل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی لیکن احتساب کے عمل کو ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آڈیٹوریم پنجابی کمپلیکس میں ڈاکٹر احسن اختر ناز کے انتقال پر تعزیتی ریفرنس میں شرکت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے۔اس موقع پر سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی ، سلمان غنی ، سجاد میر ، شہباز میاں ڈاکٹر صغریٰ صدف ،بلال حسن،امیر العظیم ،عبد الماجد ساجد ،سلمان عابد سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ نیب نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس کے نظام میں کچھ قباحتیں موجود ہیں ۔

نیب کے طریق کار میں جو بھی قباحتیں ہیں ان کو دورکرنے کے لئے جو بھی اقدامات ضرور ی ہوں گے وہ کئے جائیں گے اور اتفاق رائے سے کئے جائیں گے۔ نیشنل اسمبلی اور سینیٹ میں پاکستان کی منتخب سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں جو عوام کی ترجمانی کرتی ہیں انہیں نیب کے طریق کار پر تحفظات ہیں جس کا اظہار کا وہ کرتے رہتے ہیں۔عمران خان نے بھی خیبر پختوانخواہ میں نیب کے قوانین کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کی ہیں اور شاید اسی لئے کی ہیں کہ انکے ہاں بھی یہ تحفظات پائے جاتے تھے اورپیپلز پارٹی بھی ایسے تحفظات کا ذکر کرتی رہتی ہے ۔

اس معاملے کا اب قومی سطح پر ذکر شروع ہو چکا ہے جو بھی اقدامات کئے جائیں گے تمام منتخب قیادت کے مشورے سے اور ان کی تجاویز کی روشنی میں کئے جائیں گے تاکہ قباحتوں کو ختم کیا جا سکے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے سینیٹ یا قومی اسمبلی کی بجائے ایک جلسہ میں نیب بارے ذکر کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ان رکاوٹوں کا ذکر رہے ہیں جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔

وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جو جدوجہد کے ساتھی ہیں اور وہ وزیر اعظم سے اس تیز رفتار ترقی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جو ان کے 1991ء سے 1993ء اور1997ء اور 1999ء کے درمیان ہوئی ،اس رفتار کو اپنانے کی خواہش پورے پاکستان کی عوام کی ہے کیونکہ پاکستان دہشتگردی ہو ،توانائی کا بحران ہو ،اقتصادی بحالی کامعاملہ ہو فاسٹ ٹریک پر جب تک نہیں دوڑے گا ہم دنیا سے پیچھے رہتے چلے جائیں گے ۔

ہم اس خطے میں اپنے وسائل کے اعتبار اپنی محنت او رصلاحیت کے اعتبار سے جن ممالک سے بہتر ہیں ان کے مقابلے میں ہماری ترقی کی رفتار کم ہے اور جب اس کمی کا ذکر کیا جاتا ہے تو پھر ان رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جو سیاسی طور پر کبھی درپیش ہوتی ہیں ۔ 120دن کا دھرنا نے پاکستان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، اس سے سی پیک منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے اور ان کا حوالہ دینے اور اپنے لوگوں کے سے ڈسکس کرنا سیاسی رہنماؤں کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کو اعتماد میں لیں۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے بارے میں تحفظات تمام سیاسی جماعتوں کے ہیں اور جب اتفاق رائے سے اگلا لائحہ عمل تیار ہوگا اور جس پر اتفاق رائے ہوتا ہے ،قوم متفق ہوتی ہے اسے کوئی دوسر چیز متاثر نہیں کرتی ۔ احتساب کے عمل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی لیکن احتساب کے عمل کو ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ میں تفصیل سے کہہ چکاہوں جو منصوبے ابھی منطقی انجام کو پہنچے بھی نہیں ہوتے جن کے بارے میں ابھی مذاکرات جاری ہوتے ہیں اگر کوئی ان کے بارے میں بھی تحقیق اور تفتیش شروع کر دے تو کام کرنے والے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ہم نے اپنے ان لوگوں کو بھی تحفظ دینا ہے ۔

انہوں نے اس سوال کہ پاکستان کے اندر ہونے والے بہت سے دہشتگردی کے واقعات میں ’’را ‘‘کا نام لیا گیا ہے لیکن بھارت میں کبھی مقدمہ درج نہیں ہوا اورپٹھان واقعہ کا مقدمہ پاکستان میں درج کر لیا گیا اس کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پٹھان کوٹ واقعہ پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی میں قومی سلامتی کے تمام اداروں کی نمائندگی موجود تھی او راس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی اورجو سفارشات دیں اس پر عمل کیا جارہا ہے ۔

جب بھی دنیا میں اس قسم کا واقعہ ہوتا ہے تودنیا بھر کی انگلیاں ہماری طرف اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں ،پاکستان نے اپنا یہ فرض پور اکر کے اورپاکستان کو فرض پورا کرنا چاہیے اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں سے بچایا ہے ،اس سے دنیا میں پاکستان کی عزت اور احترام اضافی ہوگا اوراعتماد بنے گا کہ پاکستان مسائل کا نہیں بلکہ حل کا حصہ ہے ۔ اور پھر سچی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی پاکستان کی سر زمین کوایسے مقاصد کے لئے استعمال کرے جو پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے خطرے کا سبب بن جائیں ۔

پاکستان کا دفاع کرنا پاکستان کی افواج کا کام ہے اورآئین نے یہ فرض انہیں سونپا ہے اور اگر کوئی جارحیت کرنا ہے اس کا جواب دینا بھی پاکستان کی افواج کا کام ہے اور یہ فرض بھی انہیں آئین نے سونپا ہے ۔ کسی نان اسٹیٹ ایکٹرز کو جو افواج پاکستان کا حصہ نہ ہو اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ایسے کام میں ملوث ہو جس کے نتیجے میں پاکستان کو بدنامی ملے لہٰذا اس طرح کے لوگوں کی روک تھام کرنا اور دنیا کو یہ یقین دلانا کہ ہم اپنی ایسی سرزمین پر ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے یہ اقدامات مثبت ہیں۔

انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوگا کیونکہ اس پر سب کا اتفاق رائے ہے اور اس پر عمل ہوا ہے اور اسی کے نتیجے میں آج میں اورآپ خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہم آج ایسی ہستی کی یاد کے لئے جمع ہوئے ہیں جن کاموضوع ہی صحافت میں اخلاقیات سے متعلق تھا۔

جب گفتگو اس حوالے سے ہو گی تو پھر اس میں منفی کردار ہیں اور جو مثبت کردار ہیں جو اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اور جو روشنیوں میں چمکتے دھمکتے ہیں سبھی کے بارے میں گفتگو ہو جاتی ہے۔ ہمارے 65سال کی تاریخ ہے ان سالوں میں مجموعی طور پر پاکستان کی عدلیہ سے معافی مانگنے کے جتنے واقعات ہوئے ہیں ان سب کو جمع کر لیں تو اس سے زیادہ تعداد میں صرف ایک صحافی نے گزشتہ دو سالوں میں عدالت سے معافی مانگی ہے اوریہ اعزاز ایک صحافی کو حاصل ہوا ہے کہ اسے معافیاں مانگنی پڑی ہیں ۔

یہ مثال بذات خود صحافت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کر دیتی ہے ۔جھوٹ بولو ، لوگوں کی پگڑی اچھالوں اور جب عدالت بلائے اور پوچھے ثبوت اور شواہد ہیں تو عدالت کے پاؤں پڑ جاؤ اور یہ اعزاز ایک صحافی کو حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹی وی پروگرا م میں کہا گیا کہ اسحاق ڈار کل آپ نے گرفتار ہو جانا ہے اپنی ضمانت کر الیں ۔ اسحاق ڈار میرے نہیں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں اور پاکستان بین الاقوامی دنیا کا حصہ ہے ،پاکستان کی معیشت بین لاقوامی دنیا کی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے معیشت کو بین الاقوامی دنیا کا تعاون حاصل کرنا ہے ہمارا عظیم دوست چین پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے ۔

دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس فریض کو سر انجام دینے کے لئے جو شخص پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے اس کا نام وزیر خزانہ ہوتا ہے اور اس وقت جو وزیر خزانہ ہے اور اس کا نام اسحاق دار ہے ۔کل کو پاکستان کے وزیر خزانہ جب بین الاقوامی کانفرنس میں جائیں یا بین الاقوامی معاہدہ کرنے جائیں جس کا تعلق پاکستان کی معیشت سے ہو اور اس معیشت کا تعلق ہمارے سانس سے ہے ہمارے روز روزگار سے ہے اگر میں اپنی بچوں کو اچھی معیشت دے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ ان کا روزگار چلتا رہے ان کے منہ کا نوالہ نہ چھینا جا سکے تو مجھے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے ۔

لیکن جس شخص نے یہ فریضہ سر انجام دینا ہے اس کے بارے میں ہم کہہ رہے ہیں کہ شاید اس نے ایسا کوئی جرم سر زد کیا ہے اس نے ضمانت نہ کرائی تو جیل چلا جائے گا ۔ یہ بات کس بنیاد پر کی گئی ہے ۔ کسی ادارے یا شخصیت کا نام لینا مناسب نہیں ہوتا لیکن میں نے یہ نام اس لئے لیا ہے کیونکہ ہم صحافتی اخلاقیات میں پاکستان میں سب سے بڑی آواز کے تعزیتی ریفرنس میں موجود ہیں اور صحافتی اخلاقیات کے حوالے سے انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں او راپنا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا وہ صاحب آج ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہے گا ،ان کی انتظامیہ کہے گی کہ آپ ان باتوں کی وضاحت کیجیے کہ آپ پر وحی ہوتی ہے ،الہام ہوتا ہے ۔

اس شخص کے بارے میں بات کہی گئی جو دنیا بھر میں پاکستان بھر کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ نمائندگی اس نے بندوق کے زور پر چھینی نہیں بلکہ یہ حق عوام نے اپنے ووٹ سے عطا کیا ہے اور پھر اس شخص کی ذاتی زندگی ہے ،اہل خانہ ہے ،اولاد ہے دوست رشتہ دار ہیں سب ہی پوچھتے ہوں گے کہ ڈار صاحب آپ نے کون سا گناہ کر لیا کہ ایک شخص جو خود ہی منصف ہی بن گیا ہے ،خود ہی جلاد بن گیا اور وکیل بھی خود ہی اور مدعی بھی بن گیا ہے اور سزا بھی سنا دی ہے اگر ضمانت نہ کرائی تو سزا کا عمل شروع ہو جائے گا۔

یہ کیا صحافت ہے جس میں آپ جھوت بولیں اور اگر پکڑ کر عدالت میں لے جائیں تو آپ عدالت کے پاؤں پکڑ لیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ناز صاحب پر ناز اس لئے ہے کیونکہ وہ صحافت میں اخلاقیات کی بات کرتے تھے اور یقینا اسی لئے زندہ رہیں گے کہ انہوں نے صحافت میں اخلاقیات کی بات کی اور جن کرداروں کا میں نے ذکر کیا ان کی زندگی میں ہی یہ زندہ بھی ہوں گے لیکن یہ زندگی سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ ان کے پاس اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جہاں اخلاقیات دم توڑتی ہے تو پھر موت اور حیات کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے یہ ہمارے سماجی رویے ہیں جو ہمیں زندگی عطا کرتے ہیں اورہمیں موت سے بھی ہمکنار کرتے ہیں۔