میٹرو ٹرین پر اسمبلی میں بحث ، حکومتی ارکان تعریفیں ، اپوزیشن مخالفت کرتی رہی

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعرات 18 فروری 2016 18:55

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 18 فروری۔2015ء ) پنجاب حکومت کے سب سے بڑے منصوبے لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر پہلی بار پنجاب اسمبلی میں زورو شور کے ساتھ بحث شروع ہوگئی ہے جس میں حکومتی اراکین نے منصوبے کی تائیدو حمایت اور تعریف کی ہے جبکہ اپوزیشن ارکان نے اسے یکسر رد کردیا ہے اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس منصوبے کیلئے ضد کے ساتھ کام کر رہی ہے اور تمام ریاستی اداروں کو بلڈوز کررہی ہے اور دوسرے منصوبوں کے فنڈز بھی اس منصوبے میں جھونک دیے گئے ہیں عوام کو پینے کے صحت سمیت بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جارہیں ۔

اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ اس اہم منصوبے پر اسمبلی کو آج تک اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ منصوبے پر کام شروع کرنے کے بعد معاہدے کیے گئے ۔

(جاری ہے)

یہ بحث آج جمعہ کو سمیٹی جائے گی ، جمعرات کو اس بحث کا آغاز کرتے ہوئے ہوئے قانون و پارلیمانی امور کے وزیر رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک روز میں شروع نہیں کیا گیا بلکہ پرانا اور زیر التوا منصوبہ تھا ، ان کا کہنا تھا کہ جاپانی ادارے جائیکا اور سسٹرا کی طرف سے لاہور کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ایک نہیں چار لائنوں کی سفارشات پیش کی گئی تھیں جن میں گرین ،اورنج، بلیو اور پرپل لائنیں شامل تھیں جس میں گرین لائن میٹرو بس کی صورت میں آ چکی ہے ۔

اس سٹڈی کی سفارشات میں کہا گیا تھاکہ لاہور میں گروتھ کا پوٹینشنل ہے او ریہ پنجاب کا نہیں پاکستان کا فنکشنل شہر ہے اور چار لائنیں نا گزیر ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ رات کو خواب دیکھا گیا او رصبح اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ آ گیا ایسا نہیں ہے بلکہ 25سال پہلے اس کی سٹڈی کی گئی لیکن اس کے بعد آنے والوں کو اس کا خیال نہیں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ابھی اورنج لائن پر سر پیٹ رہی ہے جب بلیو لائن اور پرپل لائن بنے گی تے ’’فِر کی بنسی ‘‘(تو پھر اپوزیشن کا کیا بنے گا )۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے 1991اور 2006ء کی سٹڈیز اور سفارشات کے مطابق بن رہے ہیں اور اس میں ایک آدھی سڑک کی بجائے روٹس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اگریہ ثابت کر دیا جائے کہ یہ 25سال پرانی سٹڈیز نہیں تو جو سزا دیں ہم بھگتنے کو تیار ہیں لیکن اپوزیشن ساہ لوح لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے ۔ اس منصوبے کیلئے کل 165ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ اسکی لاگت 150ارب روپے جبکہ 15ارب روپے غیر متوقع اخراجات کی مد میں مختص کئے گئے ہیں ۔

سول ورکس کیلئے 55ارب روپے رکھے گئے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ جب اس طرح کے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو اس سے جڑے 16کاروبار ترقی کرتے ہیں۔ اس دوران اپوزیشن نے واہ واہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ’’سریا ‘‘ کا کاروبار بھی ترقی کرے گا ۔ جس پر رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ اپوزیشن کی لا علمی پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے ۔شریف فیملی کی کوئی فیکٹری یہاں کام نہیں کر رہی اور اسے بند ہوئے بھی 17سال ہو گئے ہیں اور اپوزیشن کو اس پر بھی کھلا چیلنج ہے ۔

اس منصوبے میں پیپرا رولز پر عمل کیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 55ارب کے سول ورکس میں مسابقت کے ذریعے 6ارب روپے کی بچت کی گئی ہے ۔ 95ارب روپے مکینکل ، الیکٹرانک اور ریل وغیرہ کے لئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سی آر نورینکو کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا ریل میں کوئی تجربہ نہیں جبکہ اس کے ذریعے چائنہ ریلوے کی 90ہزار مائل ٹریک فنکشنل ہے ۔

اگر کسی کو اس منصوبے کے حوالے سے شک ہے تو انکوائری کر الیں ،نیب میں چلے جائیں اپوزیشن کا ایسا رونا دھونا کسی کام کا نہیں ۔ میں حلفیہ اور آن ریکارڈ کہتا ہوں کہ میرے اعدادوشمار کو چیلنج کریں ۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ مختلف سکیموں کے 10ارب روپے اس منصوبے کی طرف منتقل کئے گئے ہیں تو بتانا چاہتا ہوں کہ 1956ء سے 2016ء کسی ایک سال کا حوالہ دیدیں جس میں مختلف سست رفتار منصوبوں کے فنڈز تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں میں منتقل نہ کئے گئے ہوں اور انہیں واپس نہ کیا گیا ہو ۔

محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور محکمہ خزانہ ہر تین ماہ بعد ا سکا جائزہ لیتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک سکیم میں دس ارب پڑے ہیں او روہ سست رفتاری سے چل رہی ہے او ردوسری سکیم جہاں تیزی سے کام ہو رہا ہے اور فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے ا س پر کام رک جائے گا تو سست روی کا شکار سکیم سے فنڈز اسے منتقل کئے جاتے ہیں اور پھر فنڈز دستیاب ہونے پر اسے واپس کر دئیے جاتے ہیں ۔

پنجاب میں انرجی سیکٹر کے لئے 1500ملین بلاک ایکویشن میں رکھے گئے تھے ، سپورٹس ، یوتھ میں 700ملین سے 200ملین ،اسی طرح قبرستان کیلئے ایک ارب رکھا تھا او رایک ارب روپے امسال تھا اگر اس میں سے لئے گئے ہیں تو انہیں واپس کیا جائے گا ۔ اگر پینے کے صاف پانی کے لئے 13ارب روپے رکھے گئے ہیں تو اس میں 11ارب سرپلس تھے اگر 7ارب لیا گیا ہے تو پانچ ارب پڑے ہیں اور یہ واپس ہوں گے ۔

میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میٹرو ٹرین منصوبے کی وجہ سے صحت، تعلیم سمیت دوسر اکوئی پروگرام بند یا متاثر نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کا رونا کسی اور چیز کا ہے اور یہ اسے نام کسی اور چیز کا دے رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ منصوبے مکمل ہو گئے تو 2018ء میں ان کا کیا بنے گا۔قائد حزب اختلاف میاں محمو الرشید نے کہا کہ رانا ثنا اﷲ خان واپس فیصل آباد اور انکی قیادت نے جاتی امرا امرتسر چلے جائیں گے لیکن لاہور والوں نے یہیں رہنا ہے ۔

اس منصوبے پر چوروں ں کی طرح خفیہ منصوبہ بندی کی گئی اور اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے آج اس پر بات کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اس منصوبے پر آغاز ہونے سے قبل ایوان میں بات ہونی چاہیے تھی۔یہاں ہسپتالوں میں ادویات نہیں،11لاکھ افراد پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ موت کے منہ میں چلے گئے ،ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ، اگر سکول موجود ہیں تو ان میں سہولیات نہیں ، زراعت کی زبوں حالی کی وجہ سے کسان خود کشیاں کر رہے ہیں ، کرائم کی شرح میں 85فیصد اضافہ ہو گیا ہے جہاں یہ حالات ہوں وہاں حکمرانوں کے سر پر میٹرو ٹرین کا بھوت سوار ہو یہ عجیب بات ہے ۔

جب موجودہ حکومت آئی تو یہ صوبہ 480ارب کے ساتھ سرپلس تھا لیکن آج 636کا مقروض ہو چکا ہے اور اس منصوبے سے قرض کی رقم 800ارب تک چلی جائے گی ۔ ایک غیر ملکی بینک سے قرضہ ملنے پر وزیر اعلیٰ جشن منا رہے ہیں ۔ ہم تب کماؤ پتر سمجھتے جب گروتھ بڑھاتے ۔ اس منصوبے پر سبسڈی کی مد مین اربوں روپے دینا پڑیں گے۔ وزیر قانون کے مطابق اس پر ڈھائی لاکھ افراد سفر کریں گے اگر لاہو رشہر کو دیکھیں تو اس کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے اور جو اس منصوبے سے استفادہ کریں گے اس کی شرح صرف دو فیصد بنتی ہے لیکن 9 کروڑ 98لاکھ لوگوں کا حق مار کر یہ ٹرین چلائی جارہی ہے ا س کی کس طرح وضاحت کریں گے؟۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ حکومت کا کوئی وژن نظر نہیں آتا اور ان کے سر پر صرف اس کا بھوت سوار ہے ۔ حکومت صاحبوں اور بابوؤں کی ترقی کے لئے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے ۔ عدالت گیارہ مقامات پر کام روکنے کیلئے حکم امتناعی جاری کر چکی ہے لیکن حکمرانوں کوان احکامات کی کوئی پرواہ نہیں ۔ان کا نام تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا اور حکومت کے سیاہ کارنامے ایکسپوز ہو رہے ہیں اور تاریخ ثابت کریگی کہ انہوں نے غلط منصوبہ شروع کیا ۔

حکومت کی دھونس، دھاندلی اور آمرانہ طرز عمل کو دس کروڑ عوام دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے سر پر صرف 2018ء سے پہلے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا بھوت سوار ہے ۔ پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے کہا کہ ایک وہ اسمبلی ہے جہاں دس کروڑ عوام نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے اور ایک ماڈل ٹاؤن کی اسمبلی ہے وہاں ایک شخص چار سے چھ بیورو کریٹس کے ساتھ مل اسمبلی چلا رہا ہے ۔

قانون میں ترامیم کر کے اس اسمبلی کو بھی وہیں منتقل کر دیا جائے او ریہی وجہ ہے کہ حکمران اسمبلی کا اجلاس بلانا بھول جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جس کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے اس کا اسلحہ ساز ی میں تجربہ ہے ۔این او سی نہ دینے پر ڈی جی آرکیالوجی کو نکال دیا گیا جبکہ ماحولات سے کس طرح این او سی لیا گیا اس سے بھی سب آگاہ ہیں۔ بتایا جایا اس منصوبے پر کتنا خرچ آ چکا ہے ،اس پر کتنا مارک اپ دیا جائے گا او ر واپسی پر کتنی سبسڈی دی جائے گی ؟۔

ایک منصوبے کے لئے نو افراد کاقتل کر دیا گیا ہے ۔ اگر کسی بیورو کریٹ کا بچہ مرتا تو وہاں وزیر اعظم او روزیر اعلیٰ پھوڑی ڈال کر بیٹھ جاتے کیا یہ کہوٹہ پلانٹ ہے جس کے لئے قربانیاں دی جائیں ۔ حکمران صرف کمیشن کیلئے کام کر رہے ہیں۔ جس کنٹریکٹر کو کام دیا گیا ہے وہ نیب زدہ ہے ۔حکومت اس منصوبے کے لئے خون چوس کر آخری حد تک جائے گی ۔ یہ منصوبہ عوام کیلئے حکمرانوں کی جیبوں کے لئے ہے ۔

پی ٹی آئی کے محمد سبطین خان نے کہا کہ اس منصوبے کی لاگت 165ارب نہیں 300سے 400ارب تک جائے گی ۔ احمد خان بھچر نے کہا کہ ایک ارب روپے سے جنوبی پنجاب میں 45ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہو سکتا تھا ۔ اس منصوبے میں ہاؤس کو بلڈوز کیا گیا ۔ وقاص حسن موکل نے کہا کہ ایک کمپنی12روپے ٹکٹ پر اس منصوبے کو بنا کر دے رہی تھی اسے یہ منصوبہ کیوں نہیں دیا گیا؟ ۔ میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث جاری تھی کہ ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔ آج صوبائی وزیر قانون میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کو سمیٹیں گے۔

متعلقہ عنوان :