میٹرو ٹرین منصوبے کیوجہ سے صحت ، تعلیم سمیت کسی شعبے میں کوئی منصوبہ متاثر ہوگا اور نہ ہی اسے بند کیا جائیگا‘ پنجاب حکومت

1956ء سے لیکر آج تک مختلف سست رفتا رمنصوبوں کے فنڈز تیز ی سے تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں کو منتقل ہوتے رہے ہیں اور پھر انہیں واپس بھی کر دیاجاتا ہے ،محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور خزانہ ہر تین ماہ بعد اس کا جائزہ لیتے ہیں اپوزیشن کا رونا کسی اور چیز کے لئے ہے لیکن وہ اسے نام کوئی اور دے رہے ہیں ،درخواست ہے پنجاب اور پاکستان کو آگے بڑھنے سے نہ روکیں اپوزیشن کو ڈر ہے اگر یہ منصوبے مکمل ہوگئے تو 2018ء میں ان کا کیا بنے گا ‘ وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان کا میٹرو ٹرین منصوبے پر بحث کا آغاز اگر دوسرے منصوبوں کے فنڈز منتقل کرنے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو ہم اس ایوان کو نہیں چلنے دیں گے ،بھرپور احتجاج کیا جائے گا قائد حزب اختلا ف محمود الرشید/اپوزیشن اراکین

جمعرات 18 فروری 2016 18:05

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کے دوران حکومت نے واضح کیا ہے کہ منصوبے کیوجہ سے صحت اور تعلیم سمیت کسی شعبے میں کوئی منصوبہ متاثر ہوگا اور نہ ہی اسے بند کیا جائے گا، 1956ء سے لے کر آج تک مختلف سست رفتا رمنصوبوں کے فنڈز تیز ی سے تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں کو منتقل ہوتے رہے ہیں اور پھر انہیں واپس بھی کر دیاجاتا ہے ،محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور خزانہ ہر تین ماہ بعد اس کا جائزہ لیتے ہیں ،اس منصوبے کیلئے بھی مختلف شعبوں سے منتقل ہونے والے فنڈز انہیں واپس کئے جائیں گے ، میٹرو ٹرین منصوبہ سٹیٹ آف دی آرٹ اور پوری دنیا میں سستا ترین ہوگا اور اپوزیشن کو چیلنج ہے کہ اگر وہ اسے غلط ثابت کرے تو حکومت جوابدہ ہو گی ، اس منصوبے میں پیپرا رولز کے مطابق شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے او رمیں اس پر بھی اپوزیشن کو چیلنج کرتا ہوں، اپوزیشن کا رونا کسی اور چیز کے لئے ہے لیکن وہ اسے نام کوئی اور دے رہے ہیں لیکن ہماری درخواست ہے کہ پنجاب اور پاکستان کو آگے بڑھنے سے نہ روکیں ، اپوزیشن کو ڈر ہے کہ اگر یہ منصوبے مکمل ہوگئے تو 2018ء میں ان کا کیا بنے گا جبکہ اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ صرف 27کلو میٹر روٹ کیلئے پورے پنجاب کی عوام کو گروی رکھ دیا گیا ہے ، قرضہ ملنے پر جشن منانا شرمناک ہے ،ایشین ڈویلپمنٹ .2فیصد پر قرضہ دینے کو تیا ر تھا جبکہ موجودہ حکومت نے اسے 3فیصد پر حاصل کیا ،چار جون 2009ء کو حکومت ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو لکھ چکی ہے ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہماری ترجیح نہیں لیکن اب اسے دھڑا دھڑ مکمل کیا جارہا ہے ،دس کروڑ عوام کی نمائندہ اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں اور ماڈل ٹاؤن میں وزیر اعلیٰ کی قیادت میں تین چار بیورو کریٹس پر مشتمل اسمبلی سب کچھ کر رہی ہے ،اگر دوسرے منصوبوں کے فنڈز منتقل کرنے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو ہم اس ایوان کو نہیں چلنے دیں گے اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت کی بجائے 50منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثنا اﷲ خان نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جائیکا اور سسٹرا کی طرف سے لاہور کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ایک نہیں چار لائنوں کی سفارشات پیش کی گئی تھیں جن میں گرین ،اورنج، بلیو اور پرپل لائنیں شامل تھیں جس میں گرین لائن میٹرو بس کی صورت میں آ چکی ہے ۔

اس سٹڈی کی سفارشات میں کہا گیا تھاکہ لاہور میں گروتھ کا پوٹینشنل ہے او ریہ پنجاب کا نہیں پاکستان کا فنکشنل شہر ہے اور چار لائنیں نا گزیر ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ رات کو خواب دیکھا گیا او رصبح اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ آ گیا ایسا نہیں ہے بلکہ 25سال پہلے اس کی سٹڈی کی گئی لیکن اس کے بعد آنے والوں کو اس کا خیال نہیں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ابھی اورنج لائن پر سر پیٹ رہی ہے جب بلیو لائن اور پرپل لائن بنے گی تے ’’فِر کی بنسی ‘‘(تو پھر اپوزیشن کا کیا بنے گا )۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے 1991اور 2006ء کی سٹڈیز اور سفارشات کے مطابق بن رہے ہیں اور اس میں ایک آدھی سڑک کی بجائے روٹس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اگریہ ثابت کر دیا جائے کہ یہ 25سال پرانی سٹڈیز نہیں تو جو سزا دیں ہم بھگتنے کو تیار ہیں لیکن اپوزیشن ساہ لوح لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے ۔ اس منصوبے کیلئے کل 165ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ اسکی لاگت 150ارب روپے جبکہ 15ارب روپے غیر متوقع اخراجات کی مد میں مختص کئے گئے ہیں ۔

سول ورکس کیلئے 55ارب روپے رکھے گئے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ جب اس طرح کے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو اس سے جڑے 16کاروبار ترقی کرتے ہیں۔ اس دوران اپوزیشن نے واہ واہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ’’سریا ‘‘ کا کاروبار بھی ترقی کرے گا ۔ جس پر رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ اپوزیشن کی لا علمی پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے ۔شریف فیملی کی کوئی فیکٹری یہاں کام نہیں کر رہی اور اسے بند ہوئے بھی 17سال ہو گئے ہیں اور اپوزیشن کو اس پر بھی کھلا چیلنج ہے ۔

اس منصوبے میں پیپرا رولز پر عمل کیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 55ارب کے سول ورکس میں مسابقت کے ذریعے 6ارب روپے کی بچت کی گئی ہے ۔ 95ارب روپے مکینکل ، الیکٹرانک اور ریل وغیرہ کے لئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سی آر نورینکو کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا ریل میں کوئی تجربہ نہیں جبکہ اس کے ذریعے چائنہ ریلوے کی 90ہزار مائل ٹریک فنکشنل ہے ۔

اگر کسی کو اس منصوبے کے حوالے سے شک ہے تو انکوائری کر الیں ،نیب میں چلے جائیں اپوزیشن کا ایسا رونا دھونا کسی کام کا نہیں ۔ میں حلفیہ اور آن ریکارڈ کہتا ہوں کہ میرے اعدادوشمار کو چیلنج کریں ۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے کہا ہے کہ مختلف سکیموں کے 10ارب روپے اس منصوبے کی طرف منتقل کئے گئے ہیں تو بتانا چاہتا ہوں کہ 1956ء سے 2016ء کسی ایک سال کا حوالہ دیدیں جس میں مختلف سست رفتار منصوبوں کے فنڈز تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں میں منتقل نہ کئے گئے ہوں اور انہیں واپس نہ کیا گیا ہو ۔

محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور محکمہ خزانہ ہر تین ماہ بعد ا سکا جائزہ لیتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک سکیم میں دس ارب پڑے ہیں او روہ سست رفتاری سے چل رہی ہے او ردوسری سکیم جہاں تیزی سے کام ہو رہا ہے اور فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے ا س پر کام رک جائے گا تو سست روی کا شکار سکیم سے فنڈز اسے منتقل کئے جاتے ہیں اور پھر فنڈز دستیاب ہونے پر اسے واپس کر دئیے جاتے ہیں ۔

پنجاب میں انرجی سیکٹر کے لئے 1500ملین بلاک ایکویشن میں رکھے گئے تھے ، سپورٹس ، یوتھ میں 700ملین سے 200ملین ،اسی طرح قبرستان کیلئے ایک ارب رکھا تھا او رایک ارب روپے امسال تھا اگر اس میں سے لئے گئے ہیں تو انہیں واپس کیا جائے گا ۔ اگر پینے کے صاف پانی کے لئے 13ارب روپے رکھے گئے ہیں تو اس میں 11ارب سرپلس تھے اگر 7ارب لیا گیا ہے تو پانچ ارب پڑے ہیں اور یہ واپس ہوں گے ۔

میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میٹرو ٹرین منصوبے کی وجہ سے صحت، تعلیم سمیت دوسر اکوئی پروگرام بند یا متاثر نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کا رونا کسی اور چیز کا ہے اور یہ اسے نام کسی اور چیز کا دے رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ منصوبے مکمل ہو گئے تو 2018ء میں ان کا کیا بنے گا۔قائد حزب اختلاف میاں محمو الرشید نے کہا کہ رانا ثنا اﷲ خان واپس فیصل آباد اور انکی قیادت نے جاتی امرا امرتسر چلے جائیں گے لیکن لاہور والوں نے یہیں رہنا ہے ۔

اس منصوبے پر چوروں ں کی طرح خفیہ منصوبہ بندی کی گئی اور اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے آج اس پر بات کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اس منصوبے پر آغاز ہونے سے قبل ایوان میں بات ہونی چاہیے تھی۔یہاں ہسپتالوں میں ادویات نہیں،11لاکھ افراد پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ موت کے منہ میں چلے گئے ،ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ، اگر سکول موجود ہیں تو ان میں سہولیات نہیں ، زراعت کی زبوں حالی کی وجہ سے کسان خود کشیاں کر رہے ہیں ، کرائم کی شرح میں 85فیصد اضافہ ہو گیا ہے جہاں یہ حالات ہوں وہاں حکمرانوں کے سر پر میٹرو ٹرین کا بھوت سوار ہو یہ عجیب بات ہے ۔

جب موجودہ حکومت آئی تو یہ صوبہ 480ارب کے ساتھ سرپلس تھا لیکن آج 636کا مقروض ہو چکا ہے اور اس منصوبے سے قرض کی رقم 800ارب تک چلی جائے گی ۔ ایک غیر ملکی بینک سے قرضہ ملنے پر وزیر اعلیٰ جشن منا رہے ہیں ۔ ہم تب کماؤ پتر سمجھتے جب گروتھ بڑھاتے ۔ اس منصوبے پر سبسڈی کی مد مین اربوں روپے دینا پڑیں گے۔ وزیر قانون کے مطابق اس پر ڈھائی لاکھ افراد سفر کریں گے اگر لاہو رشہر کو دیکھیں تو اس کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے اور جو اس منصوبے سے استفادہ کریں گے اس کی شرح صرف دو فیصد بنتی ہے لیکن 9 کروڑ 98لاکھ لوگوں کا حق مار کر یہ ٹرین چلائی جارہی ہے ا س کی کس طرح وضاحت کریں گے؟۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ حکومت کا کوئی وژن نظر نہیں آتا اور ان کے سر پر صرف اس کا بھوت سوار ہے ۔ حکومت صاحبوں اور بابوؤں کی ترقی کے لئے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران مجرم ہیں،ایسی سٹڈی موجود ہے جس میں حکومت کو اس منصوبے کیلئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے .2فیصد پر لون مل رہا تھا جس کا دس سال گریس پیریڈ اور یہ 20سال میں واپس ہونا تھا۔

ایشین بینک کو چار جون 2009ء کو لیٹر لکھا گیا کہ ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہماری ترجیح نہیں او رآج دھڑا دھڑ میٹرو ٹرین بن رہی ہے ۔ میں رانا ثنا اﷲ کا چیلنج قبول کرتا ہوں آپ کو یا مجھے استعفیٰ دینا ہوگا ۔ امرتسر میں میٹرو بس فی کلو میٹر 29کروڑ جبکہ پاکستان میں یہی ایک ارب 10کروڑ لاگت میں بنی ہے ۔ ہمارے ہاں اور برازیل میں بننے والے اسی منصوبوں میں کئی گنا کا فرق ہے ۔

حکمران لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھتے ہیں،اس منصوبے سے دس لاکھ افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ حکمران اس منصوبے میں بین الاقوامی اور قومی قوانین کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ عدالت گیارہ مقامات پر کام روکنے کیلئے حکم امتناعی جاری کر چکی ہے لیکن حکمرانوں کوان احکامات کی کوئی پرواہ نہیں ۔

ان کا نام تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا اور حکومت کے سیاہ کارنامے ایکسپوز ہو رہے ہیں اور تاریخ ثابت کریگی کہ انہوں نے غلط منصوبہ شروع کیا ۔ حکومت کی دھونس، دھاندلی اور آمرانہ طرز عمل کو دس کروڑ عوام دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے سر پر صرف 2018ء سے پہلے اس منصوبے کو مکمل کرنے کا بھوت سوار ہے ۔ سرکاری حکام کو زبانی احکامات دئیے گئے ہیں کہ محکموں کے ڈویلپمنٹ کا بجٹ خرچ نہیں کرنا بلکہ میٹرو کے لئے سرنڈر کیا جائے ۔

ہم عوام کی فلاح کے منصوبوں پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم ہاؤس کو نہیں چلنے دیں گے اور بھرپور احتجاج کریں گے ۔ پیپلز پارٹی کے جہانگیر وٹو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایوان کو بتایا جائے کہ میٹرو ٹرین منصوبے کے لئے کن شرائط پر قرض لیاگیا ہے ۔ جب میٹرو بس کا ریکارڈ مانگا جاتا ہے تو ریکارڈ کو آگ لگا دی جاتی ہے ۔

ایوان کو اعتماد میں لینے کی بجائے 200ارب کا قرض ایک ایگزیکٹو آڈر کے ذریعے لیا گیا ۔ حکومتی رکن رانا ارشد نے کہا کہ اس منصوبے سے صرف لاہور نہیں بلکہ پنجاب اور پاکستان سے آنے والے عوام سفری سہولتوں سے استفادہ کریں گے۔ پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے کہا کہ ایک وہ اسمبلی ہے جہاں دس کروڑ عوام نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے اور ایک ماڈل ٹاؤن کی اسمبلی ہے وہاں ایک شخص چار سے چھ بیورو کریٹس کے ساتھ مل اسمبلی چلا رہا ہے ۔

قانون میں ترامیم کر کے اس اسمبلی کو بھی وہیں منتقل کر دیا جائے او ریہی وجہ ہے کہ حکمران اسمبلی کا اجلاس بلانا بھول جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جس کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے اس کا اسلحہ ساز ی میں تجربہ ہے ۔این او سی نہ دینے پر ڈی جی آرکیالوجی کو نکال دیا گیا جبکہ ماحولات سے کس طرح این او سی لیا گیا اس سے بھی سب آگاہ ہیں۔ بتایا جایا اس منصوبے پر کتنا خرچ آ چکا ہے ،اس پر کتنا مارک اپ دیا جائے گا او ر واپسی پر کتنی سبسڈی دی جائے گی ؟۔

ایک منصوبے کے لئے نو افراد کاقتل کر دیا گیا ہے ۔ اگر کسی بیورو کریٹ کا بچہ مرتا تو وہاں وزیر اعظم او روزیر اعلیٰ پھوڑی ڈال کر بیٹھ جاتے کیا یہ کہوٹہ پلانٹ ہے جس کے لئے قربانیاں دی جائیں ۔ حکمران صرف کمیشن کیلئے کام کر رہے ہیں۔ جس کنٹریکٹر کو کام دیا گیا ہے وہ نیب زدہ ہے ۔حکومت اس منصوبے کے لئے خون چوس کر آخری حد تک جائے گی ۔ یہ منصوبہ عوام کیلئے حکمرانوں کی جیبوں کے لئے ہے ۔

حکومتی رکن اسمبلی باؤ اختر نے کہا کہ اس منصوبے سے دس لاکھ نہیں صرف 2300لوگوں کی اراضی متاثر ہوئی ہے اور انہیں معاوضہ دے کر ہر طرح سے مطمئن کیا گیا ہے ۔ میٹرو ٹرین منصوبہ مستقبل میں قومی ورثہ بننے جارہا ہے ۔ پی ٹی آئی کے محمد سبطین خان نے کہا کہ اس منصوبے کی لاگت 165ارب نہیں 300سے 400ارب تک جائے گی ۔ احمد خان بھچر نے کہا کہ ایک ارب روپے سے جنوبی پنجاب میں 45ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہو سکتا تھا ۔

اس منصوبے میں ہاؤس کو بلڈوز کیا گیا ۔ وقاص حسن موکل نے کہا کہ ایک کمپنی12روپے ٹکٹ پر اس منصوبے کو بنا کر دے رہی تھی اسے یہ منصوبہ کیوں نہیں دیا گیا؟ ۔ سی آر نورنکو کی پروفائل میں یہ اسلحہ ساز کمپنی ہے اور 1993-94ء میں امریکہ نے اس کمپنی کو بلیک لسٹ کر دیا تھا پھر اسے کس طرح منصوبہ دیدیا گیا ۔ میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث جاری تھی کہ ڈپٹی اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔ آج صوبائی وزیر قانون میٹرو ٹرین منصوبے پر عام بحث کو سمیٹیں گے۔