پنجاب اسمبلی، درست جواب نہ آنے پر معاملہ سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد، وزیراعلیٰ پنجاب کو ”ماموں“ بنانے پر نوٹس لینے کا مطالبہ

سپیکر اسمبلی نے پارلیمانی سیکرٹری برائے محنت و انسانی و سائل میاں نوید کو سخت لہجے میں چپ کرا دیا، 2013ء کے سوال کا بھی غلط جواب ، رکن کی دہائی

جمعرات 18 فروری 2016 16:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی کا 18فروری کو ہونے والا اجلاس وقفہ سوالات میں انتہائی گرما گرم رہا جہاں محکمہ محنت و انسانی وسائل اور اطلاعات و ثقافت کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے سوالات کے دوست اور ناملکی جوابات دینے پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خاں نے معاملہ سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا جبکہ فیصل آباد میں وزیراعلیٰ پنجاب کو 332ملین کی افتتاحی تقریب میں ماموں بنانے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

اجلاس 45منٹ تاخیر سے شروع ہوا تاہم سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن سیٹوں پر ایک خاتون رکن اسمبلی جبکہ حکومتی ارکان کی تعداد 5خواتین اور ایک مرد رکن اسمبلی پر مشتمل تھی تاہم تلاوت کلام پاک اور نعت گوئی کے دوران ارکان کی تعداد بڑھ گئی۔

(جاری ہے)

وقفہ سوالات شروع ہوا تو ضلع جہلم میں پائلڈ لیبر کے حوالے سے ایم پی اے راحیلہ انور نے پارلیمانی سیکرٹری برائے محنت و انسانی وسائل میاں نوید علی سے پوچھا کہ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے حکومت کی حکمت عملی سے ایوان کو آگاہ کیاجائے تاہم 5جولائی 2013ء کے سوال کے جواب ملنے پر غیر مطمئن رکن اسمبلی راحیلہ انور نے سپیکر پنجاب اسمبلی سے مخاطب ہوتے کہا کہ جناب اسپیکر پارلیمانی سیکرٹری کا جواب سر سے گزر جاتا ہے، جواب ہی غلط ہوتا ہے 30سکول جہلم میں کہاں بنائے گئے ہیں ۔

بتایا جائے جس پر ایوان کو بتایاگیا کہ یہ پراجیکٹ اخوت کے اشتراک سے چلائے جارہے اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قائزہ ملک کا سوال ان کی غیر موجودگی میں ڈسپوز آف کردیا گیا۔ رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے محکمہ سوشل سکیورٹی کا سب آفس ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ضلع جھنگ شفٹ کرنے پر کافی ہنگامہ کیا اور کہا کہ آفس شفٹ کرنے کی وجہ بتائی جائے یا محکمہ کا دفتر دوبارہ وہاں شفٹ کیا جائے جس پر ایوان کو بتایا گیا کہ فی الحال ٹوبہ میں ہسپتال بنانے کا بھی کوئی ادارہ نہیں اور نہ ہی دفتر واپس آئے گا۔

ٹوبہ میں ورکرز کے لواحقین کے لیے 4ایمرجنسی سنٹرز ایک میڈیکل سنٹر اور 2سوشل سکیورٹی ڈسپنسریاں پہلے سے موجود ہیں۔ پنجاب آرٹس کونسل سے متعلقہ سوال پر پی پی پی رکن اسمبلی فائزہ ملک کی غیر موجودگی ڈسپوز آف کردیا گیا۔ فیصل آباد میں سوشل سکیورٹی میڈیکل کالج کے قیام پر میاں محمد رفیق کے سوال پر ان کی غیر موجودگی میں ضمنی سوال پر رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے پارلیمانی سیکرٹری کو خوب کھری کھری سنائیں۔

امجد علی جاوید نے ایوان کو بتایا کہ اس منصوبہ کے افتتاح پر 332ملین روپے خرچ آیا لیکن جس منصوبہ کا وزیراعلیٰ نے افتتاح کیا تھا وہ منصوبہ موجود ہی نہیں۔ بیورو کریسی دھوکہ دے رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی دھوکے میں رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس منصوبہ کا افتتاح لیبر ڈے پر کیا تھا جس میں انہوں نے مزدوروں کے لیے ہسپتال کا اعلان کیا تھا تاہم یہ منصوبہ 332ملین کی لاگت سے صرف افتتاحی تقریب تک ہی محدود رہا۔

اب اس کا نام و نشان بھی نہیں جس پر پارلیمانی سیکرٹری میاں نوید نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب بہت بڑے کاریگر ہیں ان کو کوئی ماموں نہیں بنا سکتا جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خاں نے پارلیمانی سیکرٹری کو سختی سے جواب دینے سے روکتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ مزید تحقیق کے لئے سٹینڈنگ کے سپرد کردیا۔ اس کے بعد میاں طاہر کی غیر موجودگی ان کا سوال ڈسپوز آف کردیا گیا۔

ایم پی اے محمد نعیم انور کا بہاولنگر میں ڈسپنسریوں کے حوالے سے سوال اور رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد سے متعلقہ سوال کو بھی ان کی غیر موجودگی میں ڈسپوز آف کردیا گیا۔ میاں اسلم اقبال کے سوال پر ضمنی پوائنٹ پر بات کرتے ہوئے رکن اسمبلی نے محکمہ ڈی جی پی آر کے بجٹ پر خوب خبر لی جس پر پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات و ثقافت رانا محد ارشد ان کو مطمئن نہ کرسکے۔

بعدازاں ایم پی اے راحیلہ انور کے لاہور میں مزدوروں کی بیٹیوں کی میرج گرانٹ کے حوالے سے سوال پر بھی خوب بحث ہوئی جس میں ایوان کو بتایا گیا کہ 1228صنعتی کارکن کو شادی گرانٹ کے چیک دیئے گئے تاہم سوال کا جواب دینے سے پہلے پارلیمانی سیکرٹری میاں نوید کو دو دفعہ سوال بتانا پڑا جس پر راحیلہ انور نے سپیکر اسمبلی سے گذارش کی کہ پارلیمانی سیکرٹری طلب اتنے غیر سنجیدہ میں کہ ان کو سوال ہی سنائی نہیں دے رہا جس پر ایوان کو بتایا گیا کہ 1943ء کے ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ اداروں کے مزدوروں کو ہی گرانٹ دی جاتی ہے تاہم تجارتی ادارے اس کا حصہ نہیں جس میں پی سی ہوٹل بھی شامل ہے۔

وقفہ سوالات کے وقت ہونے کے باوجود سوالات ختم ہونے پر 5سے زائد ارکان اسمبلی پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوگئے جس میں امجد علی جاوید نے کہا کہ جناب اسپیکر ہمارے سوالات کو کون سی اتھارٹی غیر نشان زدہ کرتی ہے جبکہ اہم سوالات کو غیر نشان زدہ کہہ کر علیحدہ کردیا جاتا ہے جس پر سپیکر اسمبلی رانا محمد اقبال نے کہا کہ بطور سپیکر یہ اختیار میرے پاس ہے جس پر دیگر ارکان نے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت مانگی تاہم اس کے بعد پوائنٹ آف آرڈر کا ٹائم ختم ہوگیا۔