عالمی دباؤ کے پیش نظر پاک بھارت مذاکرات عنقریب بحال ہوں گے ، پاکستانی ہائی کمشنر

جمعرات 18 فروری 2016 12:56

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 فروری۔2016ء) بھارت میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے امید ظاہر کی کہ وقت بدلنے کے ساتھ ہی ہندوپاک مذاکرات بھی بحال ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں تھوڑا انتظار کرنا ہی ہو گا ۔ کہ حالات ایسے بن رہے ہیں کہ دونوں ممالک کی قیادتوں کو ماضی بھلا کر بہتر مستقبل کے لئے سوچنا ہو گا کیونکہ امن کے ماحول میں ہی دہشت گردوں کو نیپنے کا موقع نہیں مل سکتا ہے ۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ایک جریدے کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستانی ہائی کمشنر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن بحالی کو وقت کی پکار سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی اس سلسلے میں کافی حد تک متحرک ہو چکی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ بھارت کی جانب سے ابھی تک کوئی بھی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے جو کو دیکھتے ہوئے کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کی قیادتوں پر برابر دباؤ بڑھ رہا ہے اور یہی عالمی دباؤ دونوں ممالک کو قریب لانے میں مددگار ہو گا انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پربھی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور فی الوقت دونوں ممالک کی اعلی قیادت کے درمیان رابطہ نہیں ہو رہا ہے تاہم انہوں نے کہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ بن چکا ہے جس کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہوں گے تو یقینی طور پر دہشت گردوں کو کشیدگی کے ماحول میں سانس لینے کا موقع فراہم ہو گا انہوں نے کہا کہ بھارت روایتی ہٹ دھرمی کی پالیسی پر گامزن ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر زندہ حقیقت اور عالمکی برادری کی طرف سے تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہونے کے باوجود بھی وہ حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو گیا ہوتا تو بھارت کو کشمیر میں فوج رکھنے کی کوئی ضرورت نیں ہوتی لیکن اس وقت سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں تعینات ہے ۔

(جاری ہے)

سرحدوں پر بھی کشیدگی ہے اور اندرون کشمیر میں تشدد آمیز واقعات کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے ایسے میں عالمی برادری کے سامنے بھارت کیا چیز چھپا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ امن کے ماحول میں اب جنگ کی باتیں ہونے لگی ہیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کہ دونوں ممالک کے اندر کشیدگی کس حد تک ہے ۔

متعلقہ عنوان :