قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حقیقی کمی نہ کرنے، پی آئی اے کی نجکاری اور 101 ارب کے نئے گیس ٹیکس کے نفاذ پر حکومت پر کڑی تنقید

ایم کیو ایم کامولوی عبدالعزیز کے ساتھ حافظ سعید اور مولانا اظہر کی گرفتاری کا مطالبہ پشتونوں کے بلاک شناختی کارڈز بحال کئے جائیں ، غلا م احمد بلور

بدھ 17 فروری 2016 17:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 فروری۔2016ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حقیقی کمی نہ کرنے، پی آئی اے کی نجکاری اور 101 ارب کے نئے گیس ٹیکس کے نفاذ پر حکومت کو شدید نکتہ جینی کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 25 روپے کمی کی جائے، پی آئی اے کی نجکاری کی بجائے اس کی بحالی کے اقدامات کئے جائیں، پی آئی اے ہڑتال میں شرکت کرنے والے ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں، ایم کیو ایم نے مولوی عبدالعزیز کے ساتھ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا جبکہ اے این پی کے غلام احمد بلور نے پشتونوں کے بلاک شناختی کارڈز بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ افغانوں کے شناختی کارڈز بن گئے ہیں تو انہیں بھی بحال کر دیا جائے کیونکہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان تباہ ہو گیا۔

(جاری ہے)

بدھ کو اپوزیشن کی تحریک پر بحث میں پی پی پی کی شازیہ مری ،قومی وطن پارٹی کے صدر آفتاب خان شیرپاؤ، اے این پی کے غلام احمد بلور، مسلم لیگ (ن) کے اویس لغاری اور ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے حصہ لیا۔شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں تیل کی قیمت 140 ڈالر تک گئی مگر اب 25 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے، مگر حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا،(ن) لیگ جب اپوزیشن میں تھی تو پی پی پی کی حکومت کے ہر اقدام پر عدالت چلی جاتی تھی مگر ہم ذمہ دار اپوزیشن ہیں، ہم نے مخالفت برائے مخالفت پر اپوزیشن نہیں کی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کی جائیں، پی آئی اے پر 1952کے ایکٹ کے نفاذ کی مذمت اور اسے مستردکرتے ہیں، پی آئی اے کے کرایوں میں بھی کمی کی جائے، پی آئی اے قومی شناخت ہے، اسے فروخت کرنا کس طرح ممکن ہے، پی آئی اے کے 156ملازمین دی گئی سزائیں واپس کی جائیں۔

(ن) لیگ کے سردار اویس خان لغاری نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ سٹیل کی نجکاری نہ روکتی تو حکومت اس خسارے سے بچ جاتی، اس وقت اب تک قومی خزانے سے 85ارب روپے مزید کھا چکی ہے، سٹیل مل انتظامیہ نا اہل ہے، اربوں روپے کھا چکی، کاروبار کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، نجکاری حکومت کے مفاد میں ہے، خسارہ میں چلنے والے اداروں کا بوجھ آئندہ آنے والی حکومتیں نہیں اٹھاسکیں گی۔

اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، بے روزگاری کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے،حکومت نے لوڈشیڈنگ کو 2سال میں ختم کرنے کا وعدہ کیا، اب 2018ء میں ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کے پی میں ضرورت سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے مگر 12گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، کے پی میں دوسرے صوبوں کی نسبت کم لوڈشیڈنگ کی جانی چاہیے، ہمارے صوبے کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کیا جائے، غلاموں والا سلوک نہ کیا جائے، ہمارے صوبے میں کرپشن اور لاقانونیت بھی عروج پر ہے، پٹرول اور گیس پر لگائے گئے ٹیکس ختم کئے جائیں، ہماری نواز شریف سے ذاتی دشمنی نہیں ہے، ہماری دعا ہے کہ مزید دس دفعہ وزیراعظم بنیں مگر غریب عوام کیلئے تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت فراہم کریں، پختونوں کے شناختی کارڈز بلاک کئے جا رہے ہیں، اگر پاکستان آنے والے لاکھوں افغانوں میں سے 10 یا 15فیصد کے شناختی کارڈ بن گئے ہیں تو خیر ہے، انہیں بلاک کرنے کی ضرورت نہیں ۔

آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا کہ خورشید شاہ نے تین دن مسلسل تقریر کر کے بطور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کی طویل تقریر کاریکارڈ توڑ دیا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف عوام کو منتقل نہ ہونا افسوسناک ہے، اوگرا کی حیثیت نمائشی ہے، اس کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، حکومت خود فیصلے کرتی ہے، تیل کی قیمتوں میں 75فیصد کمی واقع ہوئی ہے مگر وزارت خزانہ خوش نہیں کہ ٹیکس کی وصولی کو فرق پڑا ہے،مگر دوسری طرف حکومت کو امپورٹ بل میں 6 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا ہے، اس کے باوجود ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں، بنگلہ دیش کی برآمدات اور زر مبادلہ کے ذخائر ہم سے زیادہ ہو گئے ہیں، اس وقت حکومت کے پاس بجلی سرپلس ہے مگر پھر بھی حکومت لوگوں کو بجلی فراہم نہیں کر رہی، پٹرول کی قیمت میں 5روپے کمی عوام کے ساتھ مذاق ہے، ڈیزل پر 69فیصد جی ایس ٹی لگانے سے غریب کا کیا بنے گا، یہ ملک کیسے چلے گا، پٹرول کی قیمتوں میں 15سے 20روپے کمی لائی جائے۔

قیصر احمد شیخ نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی حالانکہ 110روپے فی لیٹر سے قیمت کم کر کے 70روپے تک لائی گئی ہے، خطے میں ہماے ہاں قیمت سب سے کم ہے، امریکہ نے بھی پوری قیمت کم نہیں کی، اس سے ہمارے بجٹ خسارے میں کمی ہو گی، خسارے میں ادارے جلد نجکاری کے لئے پیش کئے جائیں۔ پی ٹی آئی کے غلام سرور نے کہا کہ پی پی پی اور (ق) لگ کے دور میں نجکاری کو جاری رکھا گیا مگر اس پالیسی میں تیزی ہمیشہ (ن) لیگ کے دور میں آئی، اس کے باوجود ملکی اور غیر ملکی قرضے بڑھے ہیں، اگر اسی طرح پاکستان کے قرضے بڑھتے رہے تو ملک کے ڈیفالٹ کا خدشہ پیدا ہو جائے گا، اگر ڈیفالٹ ہوا تو ملک کے ایٹمی اثاثوں کے کیپ کرنے کا بھی خطرہ پیدا ہو جائے گا، بینکوں کی نجکاری کا سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو ہوا، کوئی بھی نجی بینک زرعی شعبے کو قرضہ دینے کیلئے تیار نہیں، سٹیل مل 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے پر 18ارب روپے کے خسارے میں تھی، مشرف دور میں اسے منافع بخش بنا دیا گیا، جمہوریت کی بحالی پر پی پی پی اور نواز شریف کے دور میں سٹیل مل پھر اربوں روپے کے خسارے میں چلا گیا، اس کے قرضے 270 ارب ڈالر ہو گئے، وزیراعظم کی طرف سے نیب کو کرپشن کیسز بنانے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جس کی مذمت کرتے ہیں، نیب کو کہا جا رہا ہے کہ شریفوں کو تنگ نہ کرو، چاہے وہ ملک کو لوٹتے رہیں۔

ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے کہا کہ نجکاری کے نام پر تعلیمی ادارے تک فروخت کئے گئے، ملکی قرضوں کے ذمہ دار بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروانے والے ہیں، ماضی میں نجکاری کی تاریخ کی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں، نیب کو دھمکیاں اور کرپشن کیسز بند کرنے کی بات شرمناک ہے، نیب اور ایف آئی اے کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے، پی آئی اے میں ہڑتال میں حصہ لینے والوں کو نوکریوں سے نکالا جانا قابل مذمت ہے، ان کو نوکریوں پر بحال کیا جائے، شوکاز نوٹس بھی واپس لئے جائیں، حافظ سعید، مولانا اظہر اور مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کیا جائے اور وزیر داخلہ ایوان میں ان کی گرفتاری کا اعلان کیا جائے۔

شیر اکبر خان نے کہا کہ ڈیزل کی قیمت 45روپے اور اس پر ٹیکس 38روپے ہے، حکومت سے مطالبہ ہے کہ ڈیزل کی قیمت پٹرول سے کم کی جائیں، حکومت پی آئی اے کی نجکاری کی بجائے اس کے معاملات درست کر کے اسے منافع بخش بنائے۔