نیشنل بینک آف پاکستان میں ہونے والی حالیہ ترقیوں میں بڑے پیمانے پربے قاعدگیوں کاانکشاف

42 من پسندافسروں کی سینئروائس پریزیڈنٹ کے عہدے پرترقی، سندھ کے چارزونزمیں کسی افسرکوترقی نہ مل سکی، زیادہ ترترقیاں پریزیڈنٹ اورگروپ چیفس کے اسٹاف کودی گئیں ، ذرا ئع

اتوار 14 فروری 2016 15:49

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔14 فروری۔2016ء) نیشنل بینک آف پاکستان میں ہونے والی حالیہ ترقیوں میں بڑے پیمانے پربے قاعدگیوں کاانکشاف ہواہے،جس سے ملک بھر میں بینک کے سینئر افسران و ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔گذشتہ ہفتہ 42 من پسندافسروں کوسینئروائس پریزیڈنٹ(ایس وی پی) کے عہدے پرترقی دی گئی،ان میں سے سندھ اوربلوچستان کے ڈومیسائل رکھنے والے صرف ایک ایک افسر شامل ہیں جبکہ حیران کن امر یہ ہے کہ سندھ کے چارزونزمیں کسی افسرکوترقی نہیں مل سکی، زیادہ ترترقیاں پریزیڈنٹ اورگروپ چیفس کے اسٹاف کودی گئی ہیں، ترقیوں میں صوبوں کے اندرزونزاوریجنزکے ضابطہ اصول کو بھی مدنظرنہیں رکھاگیا جبکہ کسی فیلڈافسرکے گریڈ کو نہیں بڑھایا گیا ۔

4جنوری 2016ء کوترقیاں نہ دینے کے خلاف ملازمین نے زبردست احتجاج بھی کیا تھا اور قومی بینک کے ہیڈ آفس کو ایک دن کے لئے بند کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ بینک انتظامیہ نے 2014,2013اور2015ء تین سال کی ترقیوں کااعلان کیاتھا جس کے مطابق 1888افسروں کوترقی دی گئی۔42افسروں کوایس وی پی،185کووی پی،531کواے وی پی،570کوآفیسرگریڈI،330کوآفیسرگریڈIIاور230کوآفیسرگریڈIIIمیں ترقی دی گئی ۔

ایگزیکٹوگریڈزمیں ترقی پانے والے زیادہ ترافسران ہیں،جوپرپزنڈنٹ اورگروپ چیفس کے اسٹاف آفیسر،ٹائپسٹ اورکلرک کے طوپرکام کررہے ہیں۔ترقیوں میں صوبوں کے اندزونزاوریجنزکوبھی مدنظرنہیں رکھاگیا۔کسی فیلڈافسرکوترقی نہیں دی گئی۔افسروں اورملازمین کوپروموشن پالیسی پرسخت اعتراض ہے کیونکہ ایگزیکٹوگریڈمیں ترقی کے لیے 3سالہ کارکردگی کے صرف 15مارکس ہیں اور2منٹ کے انٹرویوکے 20مارکس ہیں۔

ان کاکہنا یہ ہے کہ ان انٹرویوزمیں ہی من پسندلوگوں کوترقیاں دی گئی ہیں۔یہ پالیسی 3جون 2015ء کوبنائی گئی تھی۔اس وقت نیشنل بینک میں اے وی پی سے لے کرایس ای وی پی تک تقریباڈیڑھ ہزارسے زائد افسران کام کررہے ہیں۔ایک ایس ای وی پی/گروپ چیف پربینک میں اے وی پی سے لے کرایس ای وی پی تک تقریباڈیڑھ ہزارسے زائد افسران کام کررہے ہیں۔ایک ایسی ای وی پی/گروپ چیف پربینک ماہانہ 20لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کررہا ہے۔

اتنے زیادہ افسران ہونے کے باوجود گزشتہ دنوں3ایس ای وی پی باہرسے بھرتی کئے گئے،جس پراسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سخت اعتراض کیا ہے اوریہ ہدایت کی ہے کہ آئندہ اسٹیٹ بینک سی”این اوسی“لئے بغیرکسی ایگزیکٹوعہدے پربھرتی نہ کیاجائے۔گزشتہ تین سال میں 150سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں،جن میں زیادہ ترایگزیکٹوعہدوں پربھی کی گئی تھیں۔اے وی پی سے ایس ای وی پی تک کے افسرکی تنخواہوں،گاڑیوں کی خریداری،پیٹرول،انٹرٹینمنٹ اوردیگرمراعات پرایک ارب روپے ماہانہ سے زیادہ اخراجات کررہا ہے۔

بینک کے موجودہ صدرنے اپنے لئے جوپیکیج بنوایا،وہ پاکستان میں صدراوروزیراعظم سے لے کرکسی کارپوریٹ ادارے کے سربراہ تک کسی کوبھی نصیب نہیں ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنرنے گزشتہ دنوں کہیں یہ کہہ دیاکہ ان کی تنخواہ نہ بڑھائی جائے بلکہ انہیں نیشنل بینک کے پریزیڈنٹ کاپیکیج دیاجائے۔نیشنل بینک کے صدرکی اس وقت بنیادی تنخواہ 22لاکھ 58ہزارروپے،ہاؤس رینٹ الاؤنس 12لاکھ 42ہزارروپے ،ان کی گراس سیلری ماہانہ 40لاکھ روپے ہے۔

اس کے علاوہ انہیں بجلی ،گیس،پانی،لینڈزاورموبائل فونزاوردیگریوٹیلٹیزرہائش گاہ پرمہیاہوگی۔ان کے پاس 2بلٹ پروف گاڑیاں ہیں،جن کی مالیت ڈھائی سے تین کروڑروپے فی کس ہے اس کے علاوہ ان کے استعمال میں دیگر تین گاڑیاں اوربھی ہیں۔تین سال کی مدت ملازمت کے بعد ان گاڑیوں کی 10فیصد ادائیگی کے بعد یہ گاڑیاں ان کی ہوجائیں گی انہیں دوڈرائیورمہیاکئے گئے ہیں۔

آفیشل انٹرٹینمنٹ کی کوئی حدنہیں ہے۔گھریلوں ملازمین کے لیے 90ہزارروپے ماہانہ دیئے جائیں گے۔جہازوں میں بزنس کلاس میں سفراورفائیواسٹار ہوٹلزمیں رہائش استحقاق ہوگا۔بیرون ملک سفرکی صورت میں 325امریکی ڈالرزروزانہ کاالاؤنس ملے گا۔بینک نے ان کی 3کروڑ روپے کی لائیوانشورنس کرائی ہے۔گھراوراس کے باغیچے کی مینٹی ننس بینک کریگا۔گھرکے فرنیچرکے لیے گراس سیلری برابررقم دی جائے گی۔

پہلے سال 2کروڑ80لاکھ روپے بونس ملے گاجس میں بعدازاں اضافہ کیاجائے گا۔2کلبس کی ممبرشپ کے اخراجات بینک اداکریگا۔اگربینک کے صدرنے موجودہ گھرکے لیے کوئی قرضہ لیاہوا ہے تووہ بینک اداکرے گا۔اس کے علاوہ بھی بے شمار مراعات ہیں۔نیشنل بینک کے ملازمین اورفیلڈافسران اس بات پرپریشان ہیں کہ بینک کے بے تحاشہ اخراجات کی وجہ سے یہ بینک بحران کاشکار ہوسکتا ہے۔

اوربا لا آخر اس کی نجکا ری کی جا سکتی ہے۔ایس ای وی پی کو بینک کی جانب سے ایک نئی گاڑی دی جاتی ہے ،حال ہی میں13مہنگی گا ڑیاں خریدیں گئیں جو13افسران کو دی گئیں حالانکہ ان افسرا ن کے پاس پہلے ہی لینڈکروزر موجود تھیں جو3سال مکمل ہونے کے بعد بینک نے فروخت کر دیں اور نئی ٹویوٹا (fortuner)خرید کر دی جو حکومتی پالیسی کے منافی ہے حالانکہ انہیں افسران کے استعمال میں2سے زائد گاڑیاں اور بھی ہیں ۔

ایگز ایکٹو عہد وں پر حا لیہ تر قیوں میں انٹر ویوز کو بنیاد بنا کر من پسند افراد کو نوازا گیا اور اسٹیٹ بینک سے فٹ اینڈ پراپر سر ٹیفکیٹس بھی حا صل نہیں کئے گئے پرموشن پا لیسی کے مطابق جو شخص ایل پی آر پر چلا جائے اسے تر قی نہیں دی جا سکتی لیکن پریز یڈنٹ سیکر یٹریٹ کے سلمان نامی شخص کور یٹا ئرمنٹ کے بعد تر قی دی گئی ۔2ایسے میاں بیو ی افسران کو بھی ایگز یکٹو گریڈ میں ترقی دی گئی جن کے خلاف ایف آ ئی اے تحقیقا ت کررہی ہے۔

ان پر الزام ہے کہ دونوں نے ایک ہی گھر پر ہا ؤس پرچیز لون لیاہے اس کے علاوہ بینک میں2میاں بیوی ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو گروپ چیف کے پی اے تھے انہیں غیر قانونی تقری دیدی گئی ایک اور افسر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اسکی میٹرک کی سند جعلی تھی جس کی تصدیق بھی ہوئی لیکن فارغ کرنے کے بجائے اسے اے وی پی سے وی پی کے عہدے پر ترقی دیدی گئی۔دو بھا ئیوں کی بھی ایک سا تھ ایگز یکٹو گریڈمیں ترقی دی گئی ہے اس کے بر عکس گز شتہ10سال سے نچلے گریڈ کے ملازمین کنٹریکٹ پر کا م کررہے ہیں لیکن انہیں ر یگو لر نہیں کیا گیا۔

سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خز انہ یہ سفا رش کر چکی ہے کہ کنٹریکٹ ملاز مین کو ریگولر کیا جا ئے لیکن اس سفارش کو بھی ردی کی ٹو کری میں پھینک دیاگیا ہے۔قا نون کے مطا بق مسلسل90دن تک کنٹریکٹ پر کام کر نیوالے ملازمین کو ریگو لر کرنا لازمی ہے۔ملازمین کو خد شہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ ایگز یکٹو ز کی بھرتیوں،تر قیوں اور او پر والے افسرا ن کی بے تحا شا مرا عات کی وجہ سے بینک کو اس نہج پر پہنچا یا جا رہاہے ،جہاں یہ کہا جا سکے کہ پی آئی اے کی طرح اس کی بھی نجکا ری کر دی جائے۔انہوں نے تر قیوں ،شا ہانہ اخرا جات،غیر قانونی بھرتیوں ،مہنگی مہنگی گا ڑ یوں اور مختلف compaignsمیں ہونے والی بے قا عد گیوں کا نوٹس لینے اور40ارب روپے سالانہ کمانے والے اس بینک کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔۔

متعلقہ عنوان :