بلوچ وطن وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،بی این پی

لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول نہیں بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر اور 60فیصد بلوچ جو شناخت سے محروم ہیں شناختی کارڈ کا اجراء نہیں کیا گیا تو مردم شماری کیسے کرائی جا سکے گی کسی طریقے سے قانونی تصور نہیں کئے جا سکتے،پارٹی رہنماؤ ں کا اجتماعات ‘ استقبالیہ ‘ جلسہ عام سے خطاب

ہفتہ 13 فروری 2016 22:25

چاغی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 فروری۔2016ء ) بلوچ وطن وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچوں کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا گیا گوادر پورٹ کا مکمل اختیار بلوچ کو دیا جائے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول نہیں بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر اور 60فیصد بلوچ جو شناخت سے محروم ہیں جنہیں شناختی کارڈ کا اجراء نہیں کیا گیا تو مردم شماری کیسے کرائی جا سکے گی کسی طریقے سے قانونی تصور نہیں کئے جا سکتے ان خیالات کا اظہار چاغی اور عیسی چاہ میں اجتماعات ‘ استقبالیہ ‘ جلسہ عام سے بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ‘ مرکزی رہنماء حاجی ہاشم نوتیزئی ‘ میر خورشید جمالدینی ‘ میر بہادر خان مینگل ‘ حاجی اسماعیل پیرکزئی ایڈووکیٹ ‘ ضلعی صدر ملک محمد ساسولی نے خطاب کرتے ہوئے کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ممتاز انور مینگل نے سر انجام دیئے اس موقع پر قادر مینگل ‘ محمد غوث بلوچ ‘حاجی بابو نوتیزئی ‘ محمد بخش بلوچ‘ سردار علی دوست مینگل ‘ حاجی نور احمد مینگل ‘ ڈاکٹر اختر حسین سمالانی ‘ شمشیر خان ‘ باران خان مینگل ‘ طارق بلوچ بھی موجود تھے اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان وسائل سے مالا مال سرزمین ہونے کے باوجود مسائل سے دوچار ہے آج بلوچ عوام کسمپرسی ‘ بدحالی ‘ غربت ‘ جہالت ‘ افلاس و بیروزگاری کا شکار ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ با وسائل سرزمین کے مالک کو تمام انسانی بنیادی ضروریات فراہم کی جاتیں لیکن آج چاغی ‘ نوشکی کے عوام کی زبوں حالی دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے تو کہ حکمرانوں نے عوام کی خدمت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی خاطر حکمرانی کی ہے جبکہ انسانی بنیادی ضروریات تعلیم ‘ صحت ‘ روزگار میسر نہیں ان حالات میں ہر دور کے حکمرانوں نے بلند و بالا دعوے کئے لیکن انہوں نے عوام کے خون پسینے سے بننے والے بجٹ کو اپنے مفادات ‘ کرپشن کیلئے استعمال میں لاتے ہیں جبکہ عوام کی مشکلات ‘ مسائل کو کبھی حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ عوامی مسائل کو حل کرنے سے ہمیشہ روگردانی کی جاتی رہی ہے مقررین نے کہا کہ اکیسویں صدی میں عوام کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ آج بلوچ قوم باشعور ہو چکے ہیں انہوں نے بی این پی کو ہی مسائل سے نجات دہندہ جماعت سمجھ لیا ہے سردار اختر جان مینگل کی قیادت وقت و حالات کی ضرورت ہے گوادر سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مقصد یہی تھا کہ گوادر کے جو آج اکیسویں صدی میں پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں انسانی بنیادی ضروریات ناپید ہو چکے ہیں گوادر کے مقامی بلوچ ماہی گیر نان شبینہ کے محتاج بن چکے ہیں عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سکول دانش گاہیں ‘ بنیادی ضروریات تک لوگوں کو میسر نہیں جو حکمران عوام کو پانی تک فراہم نہ کر سکیں ان کے دعوے محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے پارٹی کبھی بھی ترقی و خوشحالی کے خلاف نہیں رہی لیکن ترقی وہ قابل قبول ہے جس سے بلوچوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گوادر میگا پروجیکٹس کے اختیارات بلوچستان کے پاس ہوں پاک چائنا راہداری روٹ سے بلوچستان کے عوام مستفید ہوں فوری طور پر ایسی قانونی سازی کی جائے کہ دیگر صوبوں اور غیر ملکیوں کو گوادر سے شناختی کارڈز ‘ پاسپورٹ کے اجراء اور انتخابی فہرستوں میں اندراج پر ممانعت ہو ایسے اقدامات کئے جائیں تو ہر ذی شعور بلوچ کے ذہن میں اس ترقی و خوشحالی کو اپنا ترقی و خوشحالی تصور کریں گے ہماری ہزاروں سالوں پر محیط زبان ‘ ثقافت کو ہم ملیامیٹ ہونے نہیں دیں گے اب ان تمام جماعتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے جنہوں نے قراردادوں کی منظوری دی ان کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ آل پارٹیز میں پیش کی گئیں قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کیلئے بی این پی کا ساتھ دیں مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے بغیر ممکن ہیں بلوچوں کی 60فیصد آبادی شناختی کارڈز سے محروم ہے افغان مہاجرین کی آباد کاری نہ صرف بلوچوں اور تمام بلوچستانیوں کیلئے مسائل کے سبب ہے انتہاء پسندی ‘ مذہبی جنونیت انہی کی وجہ سے ہے دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی غیر ملکی آ کر دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالے حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بلوچستان میں ایک حلقہ میں انتخابات کرانا ممکن نہیں تو صوبے بھر میں مردم شماری کیسے کرائی جا سکے گی مقررین نے کہا کہ اس سے قبل حکومت نے اپنے دور میں مہاجرین کو نکالنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے بلکہ مہاجرین کو شناختی کارڈز ‘ پاسپورٹ کے اجراء اور انتخابی فہرستوں میں اندراج سے دریغ نہیں کیا بی این پی بلوچ قومی مفادات کی جدوجہد کر رہی ہے پارٹی اس جدوجہد کو عبادت کا درجہ دیتی ہے اجتماعی قومی مفادات ہمارے سامنے مقدس ہیں حکمران اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ ہم ان کے ہر غیر آئینی اقدام کو برداشت کریں گے ہماری جدوجہد اجتماعی قومی مفادات اور اپنی سرزمین کی تاریخ ‘ تہذیب ‘ تمدن کی حفاظت ہے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ اغیار کو یہاں آباد کر کے بلوچوں کے ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کو ملیا میٹ کریں نوشکی ‘ چاغی کے عوام کو گواہ بناتے ہوئے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری قومی جدوجہد عوام کے زبوں حالی کے خاتمے ‘ علم و شعور اور حقیقی ترقی کیلئے ہے اسی پاداش میں بی این پی کے سینکڑوں دوستوں کو ٹارگٹ کیا گیا مگر پھر بھی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے بلوچ معاشرے سے فرسودہ رشتوں کے خاتمے کیلئے جدوجہد جاری رہے گی مقررین نے کہا کہ سیندک اور ریکوڈ ک کے نام پر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں لیکن کبھی بلوچ نوجوانوں کی ترقی کیلئے دانش گاہوں کا قیام ‘ صحت کی سہولیات فراہم کرنے سمیت کوئی سے مثبت اقدام نہیں کیا جاتا بلکہ ہمیشہ مفادات پرست قیادت کو کامیاب کروایا گیا ہر دور میں عوامی مینڈیٹ کو چھینا گیا لیکن اس کے باوجود پارٹی کا سہ رنگہ بیرک بلوچ وطن کی حفاظت ‘ بلوچستان میں حقیقی ترجمان ہے بلوچ نوجوان علم کو اپنا ہتھیار بنا کر جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کریں اور بلوچ قوم کو اندھیرے میں رکھنے والوں سے ہوشیار رہیں اس موقع پر پارٹی کے عبدالرحمان ‘ سید داؤد شاہ نے نیشنل پارٹی کے مستعفی ہو کر سینکڑوں ساتھیوں سمیت بی این پی میں شمولیت اختیار کی جس میں شکیل احمد بلوچ ‘ گل داد ‘ اسرار احمد ‘ عبدالفتح ‘ عبدالمالک ‘ ندیم بڑیچ ‘ عبدالحق بڑیچ ‘ منظور بلوچ ‘چاغی سے امید شاہ ‘ شبیر احمد بلوچ ‘ غلام فاروق ‘ گلبدین ‘ عمران بلوچ ‘ شاہ خالد بلوچ ‘ صدام مینگل ‘ محمد حسن مینگل ‘ شریف مینگل ‘ عبدالولی سرپرہ ‘ ادریس بڑیچ ‘ سلطان حسنی ‘ اسلم حسنی ‘ منصور ‘ راشد مینگل ‘ داؤد بلانوشی سمیت سینکڑوں نے شمولیت اختیارکی ۔