قانون کی عدم دستیابی کے باعث سماجی ڈھانچے کو چلانا انتہائی مشکل عمل ہے، مقررین کا ا یس ڈی پی آئی اور برٹش کونسل کے پالیسی سمپوزیم سے خطاب

جمعرات 11 فروری 2016 22:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 فروری۔2016ء) اخوت فاؤنڈیشن کے ممبر بورڈ نے کہاہے کہ قانون کی عدم دستیابی کے باعث سماجی ڈھانچے کو چلانا انتہائی مشکل عمل ہے ۔ سماجی کاروباری ادارے جو افراد قائم کرتے ہیں انتہائی نفع بخش یا غیر نفع بخش ہیں ۔ وہ جمعرات کومقامی ہوٹل میں ادارہ پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور برٹش کونسل کے جاری پالیسی سمپوزیم کے دوسرے روز خطاب کررہے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اعلیٰ تعلیمی ادارے سماجی کاروباری امور کو درپیش رکاوٹوں کا مناسب حل تجویز کر کے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ حکومت کی اکثر پالیسیاں غیر متحرک اور ضرورت کی بنیاد پر ہوتی ہیں ۔ حکومت اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس عمل سے اجتناب کرتے ہوئے سکیل بنانا ہو گا تاکہ تنازعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

(جاری ہے)

ان مسائل کے حل کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ لوگو ں کی تعلیم و تربیت ، تجاویز پالیسی سازی کے لئے حکومت کو فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ی لانے کے لئے فرشتے نہ الفاظ ، بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ طلبہ میں اچھی اقدار ان کے تعلیمی ادارے کے ذریعے سے لائی جائیں۔ ممتاز صنعتکار میاں وقاص مسعود نے اپنا نقطہ ء نظر بیا ن کرتے ہوئے کہا کہ سماجی کاروبار کا مطلب معاشرے میں سماجی رویے میں تبدیلی ہے۔

جبکہ یہ ادارے اس سوچ کی بنیاد پر کام کریں گے تو بہتری ممکن ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نجی شعبے سے مل کر ضابطہ کار متعین کرے ۔ حکومت کی متضاد پالیسیاں ان اداروں کے لئے زہر قاتل ہیں۔ میاں وقاص نے حکومت کی یوتھ پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 29 سال سے التواء کا شکار ہے ۔ ماضی کی حکومت نے کچھ اقدام اٹھائے جو کہ ہماری جدو جہد کے نتیجہ تھے۔

یوتھ پالیسی 2009ء میں سامنے لائی گئی مگر اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے دائرہ اختیار میں چلی گئی۔ جس پر تا حال کوئی پیش رفت نہ ہے۔ انہوں نے ایس ڈی پی آئی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا اس ادارہ نے سماجی کاروبار کے حوالے سے ضابطہ کاری پر خاطر خواہ کام کیا ہے مگر اس حکومت سے توقع نہیں اور آئندہ حکومت کس نظر سے دیکھتی ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے ۔

مزید کہا کہ مغربی دنیا اس شعبہ میں خاطر خواہ عمدہ کام کر رہی ہے جبکہ پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر نافٹا(NAFTA) قائم ہے ۔ ہمارے ہاں گذشتہ دو برسوں سے اداروں کے سربراہ تواتر سے تبدیل ہو تے ہیں۔جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہ ہے۔ مقامی سماجی کاروباری ادارے کی مریم ایم احمد نے کہا کہ اس شعبہ کے لئے 4 اعلیٰ اوصاف وضع کئے ہیں جن میں سماجی تخلیق ، سماجی اثرات ، پائیدار ی ، کام کی اہلیت کا معیار شامل ہیں۔

بحریہ یونیورسٹی کی پروفیسر نادیہ طاہر نے کہا کہ ہمیں ضرورت ہے طلبہ کے ذریعے سوچ میں سماجیات کو پیش نظر رکھنے پر زور دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعے کاروبار اور معاشرے کو بہتری کی جانب لایا جا سکتا ہے انہوں نے سوال چھوڑا کہکون ہے جو طلبہ میں سماجی ذمہ داری کے احساس کو اجاگر کرے اور جو اس تصور کو آگے بڑھانے میں مدد کر سکے۔

پالیسی سمپوزیم سے اظہار خیال کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نوشابہ اویس نے کہا کہ نوجوان نسل سماجی مسائل پر مؤثر خدمات انجام دے سکتی ہے اگر ان اداروں میں رابطہ قائم کر دیا جائے یہ یقینا ملک کی ترقی میں درپیش مشکلات کو دور کرنے میں مدد دے گا ۔ آخر میں برٹش کونسل کے ٹرسٹن آچ نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا نظام سماجی اقدار کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جامعات مستقبل کی قیادت میں صلاحیتوں کو ابھار سکتی ہیں جس سے آئندہ کی مشکلات سے پاکستان کے عوام کو محفوظ بنا کر بہتر راہ متعین کر سکتے ہیں۔