سینیٹ کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اپوزیشن ارکان اور حکومتی ارکان کے درمیان شدید بحث, تند و تیز جملوں کا تبادلہ،مشاہد اﷲ خان کا اپوزیشن اراکین کو بھرپور جواب

آئی اے کی نجکاری کے خلاف ہڑتال غیر قانونی تھی، لازمی سروس ایکٹ 2011 میں بھی پیپلز پارٹی نے لگایا تھا ، احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا گیا تھا، ہڑتال سے پی آئی اے 750 فلائٹس منسوخ ہوئیں اور اربوں کا نقصان ہوا، ہڑتال کرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں، ہڑتال سے متاثر ہونے والوں سے بھی اظہار یکجہتی کرنی چاہیے،مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہداﷲ کا سینیٹ اجلاس میں خطاب مشاہد اﷲ کو اونچی آواز میں اور سینہ تان کر بات کرتے ہیں ،بہتر ہے کہ دلیل کے ساتھ نرم انداز میں بات کریں، یہ انداز سینیٹ کی اولیت کے خلاف ہے، حکومت نے جس طرح آئی پی پیز کے بغیر آڈٹ کے 480ارب ادا کئے، اسی طرح پی آئی اے کو خسارہ سے نکالنے کیلئے 250ارب کا بیل آؤٹ پیکج دے اور نج کاری نہ کرے، قائدحزب اختلاف سینیٹر اعتزازا ور دیگرکااظہار خیال

بدھ 10 فروری 2016 22:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 فروری۔2016ء) سینیٹ کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اپوزیشن ارکان اور حکومتی ارکان کے درمیان شدید بحث تند و تیز جملوں کا تبادلہ مشاہد اﷲ خان کا اپوزیشن اراکین کو بھرپور جواب ، اپوزیشن کی حکومت پر شدید تنقید، سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ہڑتال غیر قانونی تھی، لازمی سروس ایکٹ 2011 میں بھی پیپلز پارٹی نے لگایا تھا اور احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا گیا تھا، ہڑتال سے پی آئی اے 750 فلائٹس منسوخ ہوئیں اور اربوں کا نقصان ہوا، ہڑتال کرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں، ہڑتال سے متاثر ہونے والوں سے بھی اظہار یکجہتی کرنی چاہیے، سندھ حکومت نے احتجاج کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور سارا ملبہ وفاق پر ڈالا جا رہا ہے، سہیل بلوچ نے 15منٹ میں ٹی وی پر آ کر رینجرز پر الزام لگایا، اداروں کو کس نے تباہ کیا، اس پر تقریر کروں تو کچھ لوگ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، حکومت پی آئی اے کو خسارہ سے نکالنے کیلئے اسٹریٹیجک پارٹنر شپ ڈھونڈ رہی ہے جو ابھی تک مل نہیں رہی، اگر پیپلز پارٹی کے دور میں پٹرول کی قیمتیں کم ہوتی تو سب کو پتا ہے کیا ہوتا، حکومت ماضی کی حکوتوں کی بدکرداریوں کی وجہ سے خسارہ میں چلنے والے اداروں کو نفع بخش بنا کر رہے گی،سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ مشاہد اﷲ خان کو اونچی آواز میں اور سینہ تان کر بات کرنے سے بہتر ہے کہ دلیل کے ساتھ نرم انداز میں بات کریں، یہ انداز سینیٹ کی اولیت کے خلاف ہے، حکومت نے جس طرح آئی پی پیز کے بغیر آڈٹ کے 480ارب ادا کئے، اسی طرح پی آئی اے کو خسارہ سے نکالنے کیلئے 250ارب کا بیل آؤٹ پیکج دے اور نج کاری نہ کرے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن )کے سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ایک چھوٹے سائز کی حکومت بنائیں، جو گورننس پر توجہ دے یا پھر بڑی حکومت تشکیل دی جائے جو حکومت کے ساتھ کاروبار بھی کرے، حکومت کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے، پی آئی اے کی نجکاری ایک ادارے کا مسئلہ نہیں، یہ ایک بڑے ویژن کا حصہ ہے، مسلم لیگ (ن) کے منشور میں خسارہ میں چلنے والے اداروں کو بہتر کرنا ہے، ادارے اگر صحیح طرح سے چلائے جائیں تو چل سکتے ہیں اداروں میں اگر نا اہل لوگ بھرتی کئے جائیں گے تو پھر اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اداروں میں یہی ہو رہا ہے۔

سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ پی آئی اے کے ملازمین جو شہید ہوئے اس کی مذمت کرتا ہوں۔پی آئی اے کے ملازمین اپنا حق مانگ رہے تھے حکومت نے روشنی دینے کے بجائے آگ برسا دی، پاکستان پیپلز پارٹی نجکاری کے حامی ہیں، بشرطیکہ نجکاری کے عمل میں ملازمین کو مکمل تحفظ دیا جائے، پی آئی اے کو نجکاری کے بغیر بھی خسارہ سے نکالا جاتا ہے، پہلا تو یہ ہے کہ سینیٹ کی سپیشل کمیٹی بناتی ہے، اس کے ٹرمز آف ریفرنس میں یہ ڈالا جائے کہ پی آئی اے کو نجکاری کے بغیر خسارہ سے نکالا جائے گا، موجودہ بورڈ آف گورنر نااہل ہے، بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پروفیشنل لوگوں کو لیا جائے، اوپن بڈنگ کے تحت دوسرے ایئر لائنوں سے کوڈ شرنگ کی جائے، کوڈ شرنگ سے 150 منازل پی آئی اے کورکر سکتی ہے جبکہ اس وقت 40 منازل کور کرتی ہے، کوڈ شرنگ سے پی آئی اے کو تباہی سے بچا سکتے ہیں، کراچی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کی جائے جن میں لوگ شہید ہوئے اور لاپتہ ہوئے، یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کیا جائے۔

سینیٹر سعید مندوخیل نے کہا کہ پی آئی اے بک چکا ہے، اس پر تقریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ سینیٹر بیرسٹر سیف اﷲ نے کہا کہ اگر نجکاری کا مقصد اداروں کو ٹھیک کرنا ہے تو کوئی ذی شعور شخص اس کی مخالفت نہیں کرے گا، اگر نجکاری کا مقصد اپنے منافع بڑھانے کیلئے کی جائے تو غلط ہے، نجکاری کی حدود و قیود اور شرائط پر عمل ہونا چاہیے، پی آئی اے کی نجکاری کا مقصد اپنے منافع بنانا ہے، حکومت لاشیں گرانا بند کرے تو لوگ لاشوں کی سیاست بند کر دیں گے، پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ سیاسی نہیں ہے بلکہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے۔

سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ پی آئی اے کے حوالے سے کہا گیا کہ ہڑتال کا حق ہے۔ہڑتال کا طریقہ کا ر ہے صرف سی بی اے کوہڑتال کا حق ہے جب 35دن پہلے تحریری طور پر آگاہ کرے۔یہ ہڑتال غیر قانونی ہڑتال تھی جنہوں نے اس اس ہڑتال کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ان کو سوچنا چاہیئے ۔ لازمی سروس ایکٹ پہلی دفعہ نہیں لگا ۔2011میں بھی لگا تھا ۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے احتجاج کرنے والوں پرتشدد کیا ۔

کسی نے ہڑتالیوں کی ملاقات صدر آصف علی زردار ی سے نہیں کرائی ۔ لیکن ہم نے ہڑتال کرنے والوں کی ملاقات وزیراعظم سے کرائی ۔ ہڑتال میں 750فلائٹس منسوخ ہوئیں ۔ جن کے ویزے منسوخ ہوئے ،جن کی نوکریاں ختم ہوئیں جن کے جنازے روک لئے گئے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کسی نے نہیں کئے اور دو لوگوں نے جا کر غیر قانونی ہڑتال کرنے والوں سے اظہار یکجہتی کیا ۔

سہیل بلوچ نے 15منٹ بعد ٹی وی پر جا کر الزام لگایا کہ رینجرز نے بندے قتل کئے ۔ جب آپ کسی قاتل کو نہیں پکڑنا ہوتا تو آپ لاشوں کی سیاست کرتے ہیں ۔ جنہوں نے وکلاء کو زندہ جلایا ،نشتر پارک میں علماء کو قتل کیاوہ آج واویلا کر رہے ہیں ۔ اداروں کو کس نے تباہ کیا اس پر تقریر کروں تو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گے ۔ ہفتہ اور اتوار کو بینک کھول کر لوٹتے رہے ہیں آج ہمیں بھاشن دے رہے ہیں ۔

ائر ہوسٹس نے ٹی وی پر ایکٹنگ کی لیکن اس پر میڈیا میں واویلا کیا گیا ۔ حکومت سٹریٹجک پارٹنر شپ ڈھونڈ رہی ہے لیکن ابھی تک مل نہیں رہا ۔جن لوگوں نے اربوں کا نقصان کرایا ان کے ساتھ یکجہتی کیوں کی گئی ۔ سب سے پہلے ٹریڈ یونین پا پابندی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لگی ۔دو بندے مارے گئے ہیں ذمہ داری کا تعین کیا جائے ۔ اربوں روپے کرپشن کر کے ملک سے بھاگ رہے ہیں ۔

کوئی لندن بھاف گیا ہے ،لوگوں کو گمراہ نہ کیا جائے ۔ وفاقی حکومت پر ذمہ داری دی جا رہی ہے ۔کراچی میں قتل ہونے والے پی آئی اے کے ملازمین کی۔ سندھ حکومت نے اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی ۔ ڈھائی سال پہلے پی آئی اے کا کوئی مائی باپ نہیں تھا ۔ ڈھائی سال میں 38جہاز چلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ 40ارب کا خسارہ کر کے 19ارب پر آگیا ۔ پیڑول کی قیمت اگر پیپلز پارٹی کے دور میں ہوتی تو سب کو پتہ ہے کیا ہوتا۔

خسارے میں چلنے والے ادارے ماضی کی حکومت کی بدکرداری کی وجہ سے خسارہ میں گئے ہیں ۔ ان کو خسارہ سے نکالیں گے ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ مشاہد اﷲ کی گفتگو کا انداز ٹھیک نہیں ۔اس طرح کا انداز پہلوانی اکھاڑہ میں موزوں ہے ۔اونچی آواز میں بات نہ کی جائے ۔ دلیل کے ساتھ بات کی جائے ۔ اس طرح کے رویہ سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔ نرم لہجے میں با ت کریں گے تو اثر ہوگا ۔

یہ انداز سینیٹ کے رولز کے خلاف ہے منطق اور دلیل نہ ہو تو آواز بلند کریں اور سینہ تان کر باتیں شروع کردیں ۔ پی آئی اے کے احتجاج میں مسلم لیگ ن کا ہراول دستہ ہے احتجاج میں شریک رہی ہے ۔ مسلم لیگ ن 2011میں پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کی ۔ اب ایسا کیا ہوگیا کہ مسلم لیگ ن فوری اور جلد پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے ۔آج بھی نہال ہاشمی نے کہا کہ پی آئی اے کو بیچا جا رہا ہے تو پھر جھگڑا کیا ہے ۔

جہاز اگر چل پڑے ہیں تو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی فراخ دلی ہے اور انہوں نے متاثرین کو دیکھا ہے ۔ ایل این جی کا ٹھیکہ اس میں بیچنے والوں میں سیف الرحمان ہیں اور ایم او یو پر دستخط کر رہے ہیں ،۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائیں اور شفاف انداز میں نجکاری کریں ۔ اگر اپنے طور پر کریں گے ہیوی الیکڑک کمپلیکس کی طرح اربوں کا سکینڈل سامنے آئے گا ۔ نجکاری کی پوری تحقیق ہونی چاہیئے اور اس کے فوائد اور نقصانات کی تحقیق ہونی چاہیئے ۔

165اداروں کی آج نجکاری کی گئی ہے ایک کمیٹی بنا کر تحقیق ہونی چاہیئے کہ کتنے ادارے کام کر رہے ہیں ۔ کراچی میں شہید ہونیو الے ملازمین کا فیصلہ عدالت کرے گی ۔پرویز رشید اور مشاہد اﷲ خان نے دھمکیاں دی اور بیانات دیے جس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ در ج کیا گیا ۔ مشاہد اﷲ خان اور پرویز رشید پر ایف آئی آر درست نہیں تھی لیکن ان کے بیانات بڑے تلخ آئے ہیں ۔

حکومت کی معاملات میں خزانے کا فراخدلی سے پیسے کا ضیاع کرتی ہے ۔ حکومت نے 480ارب آئی پی پیز کو بغیر آڈٹ کے دیئے اور330ارب کا پھر سرکلر ڈیٹ بن گیا ہے ۔ پی آئی اے کی بحالی کا 200یا250ارب فنڈ دیکر بیل آؤٹ کیا جائے جس طرح آئی پی پیز کا بھی بیل آؤٹ کیا ۔ اس کی بہتری کریں ۔ حکومت کو جو آئل یونینز رہے حکومت اس کا فائدہ پی آئی اے کو بھی دینا چاہیئے اور اس سے ایئر لائن کو بحال کیا جا سکتا ہے ۔ پی آئی اے کی کمیٹی میں ٹرمزآف ریفرنس میں یہ ڈالی جائیں تحقیق کی جائے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ۔