زراعت پر اورنج لائن منصوبے کو ترجیح ،ہرحکومت نے کاشتکار دشمن بنائی ، اراکن اسمبلی زراعت بچانے کیلئے متحد ہوگئے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 فروری 2016 00:31

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08فروری۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں حکومت کی تعریفوں کے باوجود ارکان کی اکثریت کاشکاروں کے مفادات کا تحفظ اور زراعت کی بہتری کی پالیسی بنانے کیلئے متحد ہوگئی ہے جس نے پیداواری عوامل ۔ زرعی اجلاس پر اخراجات اور قمیت کا تعین کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن بنانے کی تجویز دید ی ہے جس سے حکومت نے اتفاق نہیں کیا البتہ ذراعت سے متعلقہ قوائمہ کمیٹی میں اضافی ارکان شامل کرنے اور جملہ امور کا جائزہ لینے کی تجویز دی ہے ۔

ارکان نے زراعت کے بارے میں پالیسیاں کاشتکار دشمن قراردیدی ہیں اور ان سے متعقلہ ادارے اور محکمے ختم کرکے اوپن مارکیٹ بحال کرنے کا مطالبہ کردیا ہے ۔ سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں پیر کی شب اجلاس میں زراعت اور گنے کا کاشتکاروں کے مسائل پر عام بحث شروع کی گئی تو اپوزیشن ارکان نے اعتراض کیا کہ بحث کا وقت مقرر کرنے سے پہلے طے کیا گیا تھا کہ بحث کے وقت متعلقہ محکموں کے تمام وزیر اور سیکرٹریز یہاں موجود ہونگے لیکن یہاں نہ تو وزراءہیں اور نہ ہی سیٹری موجود ہیں جس پر وزیر قانون نے بتایا کہ وزیر خوراک اورنج لائن میٹرو ٹرین کے متاثرین کی رقوم کی ادائیگی کے سلسلے میں مصروف ہیں جیسے فارغ ہوں گے ، اجلاس میں ااضائے گے ، ویسے بھی ایوان میں جو وزیر بھی موجود ہو وہ پوری حکومت کا نمائندہ پہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

جس میں درجن بھر ارکان نے حصہ لیا جن میں پیپلزپارٹی کا کوئی رکن شامل نہیں ، خواتین میں سے صرف پی ٹی آئی کی سعدیہ سہیل نے بحث میں لیا جو اپنی تقریر کرکے ایوان سے باہر چلی گئیں اس طرح پوری بحث کے دوران ایوا ن کی کسی نشست پر کوئی خاتون رکن دکھائی نہ دی ۔ پالیسی بیان میں وزیر ذراعت ڈاکڑ فرخ جاوید نے بتایا کہ گنے کا شتکار کی پچھلے مالی سال کی 99فیصد ادائیگی کردی گئی ہے اور موجودہ مالی سال میں اب تک 80فیصد سے زائد ادائگی کی جاچکی ہے ، انہوں نے بتایا کہ سری لنکا اور مائیشیاءکو آلو ایکسپورٹ کیا جارہا جبکہ پندرہ فروری کے بعد روس کو بھی ایکسپورٹ کرنا شرع کردیا جائے گا ، وزیر اعلیٰ 2018تک پنجاب میں گروتھ ریٹ8فیصد تک لیجانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے اہداف بھی مقرر کررکھے ہیں ، وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ پچھلے مالی سال کے دوران 133ارب کروڑ روپے کا گنا خریدا گیا تھا جس میں سے 132ارب 47کروڑ روپے کی ادائیگی کی جاچکی ہے جو جو مجموعی طور پر 99فیصد ہے جبکہ چھ ساتھ ملوں کے زمے کچھ رقم باقی ہے جن کا سٹاک قبضے میں لے لیا گیا ہے۔

اسی طور موجودہ سیزن میںکاشتکار سے 67بلین کا گنا خریدا گیا جس میں سے ارب روپے کی ادائیگی ہوچکی ہے اور جو مجموعی طور پر87.7فیصد بنتی ہے جبکہ کرشنگ سیزن اپریل تک جاری ہے اور سو فیصد ادائیگی یقنی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشنن لیڈر میاں محمود الرشید نے حکومت کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اعدادو شمار مسترد کردیے اور کہا کہ کاشتکار کسمپرسی کا شکار ہیں اور خود کشیوں پر مجبور ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کی بجائے مل مالکان کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے ۔ حکومتی رکن چودہری اقبال نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہ اپوزیشن لیڈر نے انتہائی ڈراﺅنی صورت پیش کی ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ، پاکستان میں پہلی بار کاشتکاروں کو فی ایکڑ پانچ ہزار روپے کا پیکیج جبکہ کھاد پر فی بوری ایک سو روپے سبسڈی دی جارہی ہے ، کچھ ارکان نے کاشتکاروں کے مسائل کے بجائے حکومت کی پالیسیوں کی تعریفیں کیں اور کہا کہ سبز انقلاب بہت قریب ہے لیکن حکومتی میاں رفیق نے کہا کہ تمام فوجی اور جمہوری حکومتیں کاشتکاروں کی کسمپرسی کی ذمہ دار ہیں ۔

مناظر علی رانجھا نے کہا کہ کاشتکاروں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے ، پیداوار بڑھانے اور کاشتکار کو اس کی محنت کا صلہ دینے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے جس پر وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مناظر علی رنجھا زراعت کی سٹینڈگ کمیٹی میں مزید ارکان شامل کرلیں ۔۔ کمیٹی تمام امور کا جائزہ لیکر اپنی رپوقرٹ پیش کی جائے لیکن اسے پابند کیا جائے کہ وہ مقررہ وقت پر اپنی رپورٹ بھی پیش کرے ۔

الیاس چنیوٹی ، شاہ محمد کھگہ ، احسن ریاض فتیانہ، ملک احمد خاں بھچر ، وقاص حسن موکل ، میاں اسلم اقبال نے پالیمانی کمیٹی بنانے پر زور دیا جبکہ حکومتی رکن ملک وارث کلو نے کہا کہ کسی حکومت نے بھی کاشتکاروں کی بہتری اور فلاح کیلئے کوئی پالیسی کوئی پالیسی نہپیں بنائی بلکہ آج تک بننے والی تم،ام پالہیسیاں اور ادارے و محکمے کاشتکار دشمن ہیں ، کاشتکار کو محکمے کھا رہے ہیں ، اور اصل فائدہ ملز مالکان اور تاجر اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکار کو تیل زرعی آلات اور بجلی سمیت پیداواری عوامل پر ٹیکس سے نجات دلائی جائے ، تمام ادارے ختم کردیے جائیں اور کاشتکار کو اپنی اجناس مارکیٹ میں فروخت کرنے کا اختیار دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ ایسا پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جس میں تمام متعلقہ وزارتوں ، سیکرٹریوں اور ماہرین کو شامل کیا جائے جو جائزہ لے کہ کون سی فصل پر پیدواری اخراجات کتنے ہیں ، کونسی فصل بہتر ہے ، کسان کو کس طرح نقصان سے بچانا ہے ۔ عرفان دوتانہ نے کہا کہ ہم کاشتکاروں کے ساتھ ہیں ، کشتکار کو زندہ رکھنے اور زراعت کو بچانے کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں ، بحث ابھی جاری تھی کہ اسمبلی کا وقت ختم ہونے پر اجلاس ملتوی کردیا گیا

متعلقہ عنوان :