سانحہ ماڈل ٹاؤن، پولیس نے 7 سے 8 دن بعد زخمیوں کے میڈیکل سرٖٹیفکیٹس حاصل کیے

6سے 24 گھنٹے کے اندر زخم کی طبی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے،پولیس چالان فرضی کارروائی پر مشتمل ہے دہشتگردی کی عدالت میں ڈاکٹر پر جرح کے بعد رائے بشیر ایڈووکیٹ کی رہنماؤں کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو

پیر 8 فروری 2016 18:41

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 فروری۔2016ء ) سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں پاکستان عوامی تحریک کی لیگل ٹیم کے سربراہ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ 8 فروری کے دن دہشتگردی کی عدالت میں ایم ایل سی جاری کرنے والے ڈاکٹر پر جرح کے دوران یہ بات ریکارڈ پر آئی کہ پولیس نے زخمیوں کے ایم ایل سی7 سے 8 دن بعد حاصل کیے جبکہ 6 سے 24 گھنٹے کے اندر زخم کی طبی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے ،عدالت میں پیش ہونے والے ڈاکٹر کے بیان کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایم ایل سی حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور دباؤ پر حاصل کیے گئے اور پولیس نے اپنے چالان میں جن کو زخمی ظاہر کیا ہے ان کے زخم بھی فرضی ہیں ،میڈیکل سرٹیفکیٹس کی روشنی ان کا 17 جون 2014 کے سانحہ سے تعلق ثابت نہیں ہوتا،ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے دہشتگردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں جرح کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر مرزا نوید ایڈووکیٹ، نعیم الدین ایڈووکیٹ، قمر اشفاق ایڈووکیٹ اور سردار غضنفر ایڈووکیٹ اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان نوراﷲ صدیقی بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت میں یہ بات بھی ریکارڈ پر آئی کہ ایک پولیس افسر طارق عزیز کوزبردستی زخمی ظاہر کر کے اس کا میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکی ،انہوں نے کہا کہ پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی جو ایف آئی آر درج کی اور جو چالان پیش کیا وہ فرضی گواہان اورداستان گوئی پر مبنی ہے،رائے بشیر احمدایڈووکیٹ نے دہشتگردی کی عدالت میں داخل ہوتے ہی پولیس اہلکاروں سے کمرہ عدالت کو پاک کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پولیس اہلکار تحریک منہاج القرآن کے گواہان کو حراساں کررہے ہیں اور انہیں دہشتگردی کی عدالت میں دہشت پھیلانے سے روکا جائے،جس پر جسٹس خواجہ ظفر اقبال نے پولیس اہلکاروں کو قطار بنا کر ایک سائیڈ پر کھڑا ہونے کا حکم دیا،باقی گواہان پر 10 فروری کو جرح ہو گی ۔

متعلقہ عنوان :