حکومت پی آئی اے سمیت دیگر قومی اداروں کی نجکاری کے فیصلے کو واپس لے ،لازمی سروسز ایکٹ کا فی الفور خاتمہ کیا جائے ‘ اے پی سی

جماعت اسلامی لاہور کے زیر اہتمام اے پی سی سے لیاقت بلوچ، محمود الرشید،علامہ زبیر احمد ظہیر،مولانا بشیر نظامی اور ٹریڈ یونینز کے عہدیداروں کا خطاب

اتوار 7 فروری 2016 17:29

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 فروری۔2016ء ) جماعت اسلامی لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ آل پار ٹیز کانفرنس کے شرکاء نے پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نجکاری کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی آئی اے سے لازمی سروسز ایکٹ کا فی الفور خاتمہ کیا جائے ، نجکاری کے مشکوک عمل کے بارے میں پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی یونین کے عہدیداران سے مشاورت اور انہیں اعتما د میں لیا جائے ،پی آئی اے اور دیگر قومی ادارے عوامکی ملکیت ہیں ان کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے اورآل پارٹیز کانفرنس بلا کر انہیں اعتماد میں لیا جائے ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیداران اور سینکڑوں گرفتار اور لاپتہ ورکرز کو بازیاب اور رہا کیا جائے۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اﷲ مجاہد ، قائد حزب اختلاف اسمبلی میاں محمود الرشید ،پاکستان پیپلزپارٹی کے زاہد ذوالفقار ،جمعیت اہلحدیث کے علامہ زبیر احمد ظہیر ،جمعیت علماء اسلام کے ، مولانا بشیر احمد نظامی ،پی آئی اے پیپلز یونٹی کے صدر کاشف رانا ، حافظ سلمان بٹ ،شیخ محمد انور پریم سمیت دیگر نے شرکت کی ۔

لیاقت بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجود ہ سرکار کئی قومی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کر چکی ہے اور حکومت کے اعلان کے مطابق 68 قومی اداروں کی فروخت کی جا رہی ہے ۔ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ نجکاری اداروں کی بہتری کے لئے کی جا رہی ہے حالانکہ یہ فیصلہ بیرونی دباؤ یعنی آئی ایم ایف کی ہدایت اور مطالبہ پر کیا جا رہا ہے ۔ نجکاری کے مسئلہ کو جس بھونڈے انداز میں ہینڈل کیا جا رہا ہے اس پر حکمرانوں کی عقل و شعور پر سوالیہ نشان ہے ۔

جمہوری ملک کے اندر احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن احتجاج کرنے پر گولیاں چلا کر دو ملازمین کو شہید اور سترہ کو زخمی کر دینا کہا ں کا انصاف ہے ۔ جب کہ وزیر اعظم پاکستان نے اس واقعہ پر اظہار افسوس کرنے کی بجائے اشتعال انگیز بیان دینے شروع کر دئیے ہیں اور کہا ہے کہ ہڑتالی ملازمین کو فارغ کر کے جیلوں میں ڈالیں گے ۔لاہور کے بعد کراچی ، اسلام آباد ، پشاور ، کوئٹہ ، ملتان اور فیصل آباد میں بھی اینٹی نجکاری کانفرنسز ہونگی ۔

قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ حکومت کی یہ دلیل کہ زیادہ ملازمین ہونے کی وجہ سے ادارہ خسارے کا شکار ہے اور ادارے میں اگر کرپشن ہو رہی ہے تو موجودہ حکومت خود اس کی ذمہ دار ہے جس کی گڈ گورننس پر کئی سوالات ہیں ۔ حکومت کی طرف سے نئی ایئر لائن کی تجویز انتہائی بھونڈی اور فضول سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور اس تجویز کے پیچھے بھی خلوص اور نیک نیتی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ہڑتال کرنیوالوں کے خلاف انتقامی کاروائی اور انہیں بلیک میل کرنا ہے ۔

آج کی حکومت پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں میں بوجوہ اصلاحات اور شفافیت لانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ ذکر اﷲ مجاہد امیر جماعت اسلامی لاہور نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں اب تک ہونے والی نجکاری کا عمل ہمیشہ غیر شفاف رہا ہے ۔ موجودہ پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کا بحران بھی طویل بد نظمی ،لوٹ مار اور میرٹ کی تذلیل کا نتیجہ ہے جس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔

کراچی میں پر امن احتجاج کے دوران پی آئی اے کے ملازمین کی خون نا حق کی ذمہ داری کس کے سر ہے ۔ امن و امان کی بنیادی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے حکومت حسب سابق جوڈیشل کمیشن بنا کر ’’مٹی پاؤ‘‘پالیسی پر آمادہ نظر آتی ہے ۔سیکرٹری جنرل نیشنل لیبر فیڈریشن حافظ سلمان بٹ نے کہا کہ ہم پریم یونین کے ساتھ مل کر 10فروری کو ملک بھر کے ریلوے سٹیشنوں پر نجکاری کے خلاف یوم سیاہ منائیں گے اور پی آئی اے کے ملازمین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔

عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے رینجرز کا استعمال انتہائی نا عاقبت اندیشانہ فیصلہ تھا ۔ وزیر اعظم پاکستان اگر آئین اور پارلیمانی جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر فعال کردار ادا کرتے تو احتجاج سڑکوں پر کبھی نہ آتا ۔زاہد ذوالفقار نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی لاہور نے کہا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ اگر ایک سال کی مہلت مانگ رہی ہے تو اسے یہ موقعہ دینا چاہیے اور آئی ایم ایف کے دباؤ میں عجلت پر مبنی ایسے فیصلوں سے اچھے نتائج نہیں نکل سکتے ہیں جو قومی اور عوامی مفادات کے برعکس ہوں ۔ حکومت لاٹھی اور گولی کی بجائے مشاورت ، شفافیت اور انصاف کے جمہوری اصولوں پر عمل کر کے ریاستی امور سر انجام دے ۔