ترکی سرحد پر موجود شامیوں کو پناہ دے،یورپی یونین کے رہنماؤں کا مطالبہ

پناہ گزینوں کو اْن کی سرحد ہی میں خوراک اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے، انھیں سرحد عبور کرنے کی ضرورت نہیں ،ترکی

اتوار 7 فروری 2016 14:29

برسلز/ نقرہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔07 فروری۔2016ء ) یورپی یونین کے رہنماؤں نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے علاقے حلب میں تازہ حملوں کے بعد جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے تقریباّ 35 ہزار مہاجرین کو پناہ دیں۔شام کے سب سے بڑے شہر حلب کے قریب حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی میں تیزی آئی ہے اور حکومتی دستے باغیوں کے اس اہم ٹھکانے کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔

شام میں جاری خانہ جنگی اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں مقیم تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق جمعے کو رتیان نامی قصبے کے نواح میں ہونے والی لڑائی میں دونوں جانب سے تقریباً 120 جنگجو مارے گئے ہیں۔شامی پناہ گزین گذشتہ دو دنوں سے ترکی سے متصل شام کی سرحد پر اکٹھے ہو رہے۔

(جاری ہے)

یورپی یونین کی خارجہ اْمور کی سربراہ فیدریکا موگیرنی کا کہنا کہ یہ قانونی کے بجائے اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پناہ گزیبوں کو تحفظ فراہم کریں۔

ترکی کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو اْن کی سرحد ہی میں خوراک اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔ اس لیے انھیں سرحد عبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اگرچہ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شامی مہاجرین کی مدد کرنے کو تیار ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق ترکی نے شام کے ساتھ اپنی سرحد بند کی ہوئی ہے۔گزشتہ چند دنوں کے دوران روسی فضائیہ کی بمباری کے بعد شام کی سرکاری فوج کو حلب کے علاقے میں باغیوں کے خلاف کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

جمعے کو شام کے سرکاری ٹیلی ویڑن کا کہنا تھا کہ حکومت کی حامی طاقتوں نے حلب کے شمال میں رتیان کے قصبے سے باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب رتیان حکومت کی حامی فوجوں کے ہاتھ آ گیا ہے۔ترکی سے بی بی سی کے نامہ نگار مارک لوون کا کہنا ہے کہ جمعے کو حلب کے علاقے سے نقل مکانی کر کے ترکی چلے جانے کے خواہش مند مہاجرین نے جمعے کی رات سرحد کے قریب عارضی پناہ گاہ میں گزاری لیکن ترکی نے مرکزی راستہ بند رکھا۔

متعلقہ عنوان :