اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے صحت ، تعلیم سمیت کسی بھی شعبے کیلئے مختص بجٹ میں سے ایک روپے کی بھی کٹوتی نہیں کی گئی ، منصوبے کیلئے چین کا ایگزم بینک آسان شرائط پر قرض فراہم کرے گا‘ منصوبے کیلئے تقریباً ایک ہزار کنال اراضی درکار ہے ‘ 2400 کے لگ بھگ متاثرین کو مارکیٹ ریٹ سے دوگنا ادائیگی کی جارہی ہے‘ قومی ورثہ کی تزئین و آرائش اور اپ گریڈیشن کے لئے الگ سے 100ملین روپے رکھے گئے ہیں، اپوزیشن حقائق جاننے کے باوجود بے بنیاد پراپیگنڈہ کرر ہی ہے لیکن یہ منصوبہ ان کی منفی سیاست کا بیڑہ غرق اور نیست و نابوت کرنے کا منصوبہ ہو گا ۔خواجہ احمد حسان‘رانا ثناء اﷲ خان اور بلال یاسین کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

Zeeshan Haider ذیشان حیدر ہفتہ 6 فروری 2016 17:17

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 06 فروری۔2015ء) اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے صحت ، تعلیم سمیت کسی بھی شعبے کیلئے مختص بجٹ میں سے ایک روپے کی بھی کٹوتی نہیں کی گئی ، منصوبے کیلئے چین کا ایگزم بینک آسان شرائط پر قرض فراہم کرے گا اور سات سال کے گریس پیریڈ کے بعد بیس سال میں اسکی واپسی کرنا ہے ، لاہور کے بعد پنجاب کے جس شہر میں بھی اسکی ضرورت ہو گی اسے وہاں شروع کیا جائے گا ،آزاد کشمیر سمیت کوئی بھی صوبہ اس منصوبے کے حوالے سے ہمارے تجربے سے استفادہ کرنا چاہے تو اسے کھلے دل سے پیشکش کرتے ہیں ، منصوبے کیلئے تقریباً ایک ہزار کنال اراضی درکار ہے اور اسے ایکوائر کرنے کیلئے کسی طرح کی ایمرجنسی نہیں لگائی گئی ، 2400 کے لگ بھگ متاثرین کو مارکیٹ ریٹ سے دوگنا ادائیگی کر رہے ہیں جبکہ کہیں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے ، اس منصوبے کیوجہ سے لوگ بآسانی تاریخی مقامات کی سیر کر سکیں گے اوراسی تناظر میں قومی ورثہ کی تزئین و آرائش اور اپ گریڈیشن کے لئے الگ سے 100ملین روپے رکھے گئے ہیں، اپوزیشن حقائق جاننے کے باوجود بے بنیاد پراپیگنڈہ کرر ہی ہے لیکن یہ منصوبہ ان کی منفی سیاست کا بیڑہ غرق اور نیست و نابوت کرنے کا منصوبہ ہو گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان اور مرکزی رہنما خواجہ احمد حسان نے ایوان وزیراعلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پرصوبائی وزراء میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن ، بلال یاسین ، مسلم لیگ (ن) لاہو رکے صدر پرویز ملک ، کمشنر لاہور ر ڈویژن عبد اﷲ خان سنبل ، ڈی سی او کیپٹن (ر) محمد عثمان سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ عوامی فلاح کے منصوبوں کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور سیاست کی نظر کرنا ہمارے ہاں بہت پہلے سے موجود ہے او رختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔

جب موٹر وے کا منصوبہ عمل میں لایا جارہا تھا تو تب بھی پراپیگنڈا کیا گیا اور اسے زیر تنقید لایا گیا کہ عیاشی ہو رہی ہے اور اس رقم کو کسی دوسرے جگہ کیوں نہیں لگا یا جاتا لیکن جب یہ منصوبہ مکمل ہو گیا ہے تو تنقید کرنے والے بھی قائل ہو گئے ۔اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی ایسا ہی منصوبہ ہے جب یہ بن جائے گا تو جو آج کہہ رہے ہیں کہ یہ لاہور کی تباہی کا منصوبہ ہے یہ انکی منفی سیاست کی تباہی اور اسے نیست و نابود کرنے کا منصوبہ ثابت ہوگا ۔

تنقید کرنے والوں کو سارے حقائق معلوم ہیں لیکن وہ جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1991ء میں جو سروے کئے گئے اس میں سفارشات کی گئیں کہ لاہور شہر کے لئے اورنج لائن اور گرین لائن کے منصوبے نا گزیر ہیں اور 1991ء کی ماس ٹرانزٹ منصوبے کی سوچ کو 25سال بعد پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے ۔ خان صاحب ،بہتان اور حسد الٰہی صاحب اس کے بارے میں پراپیگنڈا کر رہے ہیں ۔

گرین لائن منصوبہ وہی ہے جس پر میٹرو بس بنی ہے اور اس کا روٹ بھی یہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نیب او رآزاد عدلیہ آزاد ہے ،آزاد میڈیا بھی موجود ہے چیلنج کرتے ہیں کہ میٹرو بس منصوبے کے کسی مرحلے میں کرپشن کا معاملہ ہو تو اسے سامنے لایا جائے ہم جوابدہی کے لئے حاضر ہیں ۔ انہوں نے میٹرو ٹرین منصوبے کو عام انتخابات سے قبل مکمل کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ایک منصوبہ جو ایک سال میں مکمل ہوتا ہے اس پر ایک ارب لاگت آتی ہے اور جب یہ تین سال میں مکمل ہوتا ہے تو اس کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔

پاکستان مین تاریخ دیکھ لیں جو منصوبہ پی سی ون میں دس کروڑ لاگت کا تھا پانچ سال میں اسکی لاگت 60کروڑ تک پہنچ گئی اس لئے یہ منصوبہ جتنی جلد مکمل ہوگا یہ اتنا ارزاں رہے گا اس لئے ہمیں جلدی ہے لیکن اپوزیشن اس میں تاخیر چاہتی ہے او روہ چاہتے ہیں کہ یہ 2018ء تک مکمل نہ ہو لیکن ہم اسے 2017ء کے آخر تک مکمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ رورل روڈ پروگرام، صحت ،تعلیم اورپینے کے صاف پانی سمیت کسی شعبے سے ایک روپے کی کٹوتی کر کے اس منصوبے پر خرچ نہیں کیا گیا ۔

لینڈ ایکوزیشن کیلئے بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صرف رورل روڈ پروگرام صرف رواں سال ساٹھ ارب کا منصوبہ ہے ۔ خواجہ احمد حسان نے منصوبے کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور کی آبادی دس ملین کو پہنچ گئی ہے اور اس میں روزانہ 6.8ملین لوگ مختلف طرح کی ٹرانسپورٹ سے سفر کرتے ہیں ۔ 2006ء میں محسوس کیا گیا کہ جب تک ہم ماس ٹرانزٹ کی طرف نہیں آئیں گے ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔

انہوں نے کہا کہ کہ اس کیلئے 1991اور 2006ء سے سوچ موجو دہے اور باقاعدہ سروے ہو چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہو کہ رات سو کے اٹھے کہ منصوبہ بنا لیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت منصوبے کے حوالے سے بات ہوئی اور اس کی لاگت کا جائزہ لیا گیا تو یہ 2.4ارب ڈالر تھی اور چین کے ساتھ بحث کے بعد اسے 1.7ارب ڈالر پر لائے لیکن وفاق میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ساورن گارنٹی نہ مل سکی او رہم اس پر عملدرامد نہ کر سکے ۔

اس کے بعد میٹرو کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ اس کا تسلسل ہے کہ استعداد کو بڑھایا جائے ۔ موجودہ حکومت آنے کے بعد ہم نے اس کے لئے دوبارہ عملی کام شروع کیا جس کیلئے دس سے بارہ کمپنیوں نے حصہ لیا لیکن ہماری بنیاد ی شرط تھی کہ جو کمپنی اسے حاصل کرے گی وہ اپنی حکومت سے مالی معاونت کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری ہو گی اور صرف کی کمپنی ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ چین گئے تو چینی حکومت سے بات ہوئی او ریہ طے پایا کہ یہ حکومتوں کے درمیان منصوبہ ہو گیا اور اس کے لئے بولی کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وزیر اعلیٰ نے اس کی بولی کرائی جو2.12ارب ڈالر آ گئی لیکن وزیر اعلیٰ بحث و مباحثہ کر اکے آٹھ ماہ بعد اسے 1.47ڈالر تک لانے میں کامیاب ہو گئے او ریہ بڑی کامیابی ہے اور ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔

ہم چین کی حکومت کے ممنون ہیں جس نے ہمیں سپورٹ کیا اور یہ چین کی طرف سے پاکستان کے لئے عظیم تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے لئے تقریبا ً ایک ہزارکنال اراضی ایکوائر کی گئی ہے اور متاثرین کو ایک ہی چھت تلے چوبیس گھنٹے میں ووچر دیاجارہا ہے اور اس کے بعد چوبیس گھنٹے میں رقم ان کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو رہی ہے ۔ اس کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر اسٹیٹ بینک کو فون کیا اور تصدیق کے عمل میں ٹائم کی بجائے چوبیس گھنٹوں میں رقم منتقل کرنے کا کہا اور اب تک پونے تین ،تین ارب روپے کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں اور تعداد کے لحاظ سے کل چوبیس سو متاثرین ہیں جن میں سے چھ سے سات سو کو ادائیگیاں ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاوضے کی ادائیگی سٹیٹ بینک آف پاکستان کے منظور شدہ ایو یلیو ایٹرز کے تخمینے کی بنیاد پر مارکیٹ ریٹ سے بہتر کی جارہی ہے ۔ مالکان کو اراضی پر تعمیر شدہ عمارت کا معاوضہ ،کاروبار کے نقصان کا ازالہ اور رہائشگا کی منتقلی کے اخراجات کے طو رپر بھی اصافی رقم ادا کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ پنجاب حکومت کی مینجمنٹ او رقیادت کے دل میں اپنے قومی ورثہ کیلئے درد نہ ہو اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے ۔

انہیں چھونا تو دور کی بات اس سے بہت دور ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بجٹ سے کبھی بھی یہ منصوبہ نہیں بنا سکتے تھے ۔ عالمی مالیاتی ادارے اتنی بڑی رقم پانچ سے دس سال کی مدت میں دیتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور قیادت کی کی کریڈیبلٹی ہے کہ چین کی طرف سے ہمیں یہ رقم ستائس ماہ میں مل جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے جس دوسرے شہر میں اسکی ضرورت ہو گی وہاں بھی لے کر جائیں گے ۔

ہم آزاد کشمیر سمیت تینوں صوبوں کو بھی اپنے تجربے سے استفادہ دینے کے لئے تیار ہیں کہ وہ ہم سے فائدہ اٹھائیں ہم نے کنسلٹنسی پر ایک بڑی رقم خرچ کی آپکو بالکل مفت فراہم کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایمر جنسی لگا کر زمین ایکوائر نہیں کی بلکہ اس کے لئے تمام قانونی ضابطے مکمل کئے گئے ۔زمین ایکوائر کرنے کے لئے پہلے سے پی سی ون منظور ہے اور اس کیلئے رقم مختص تھی کسی شعبے سے کٹ نہیں لگایا ۔

انہوں نے جین مندر کی تین آبادیوں کے متاثرین کے حوالے سے بتایا کہ ان میں وہ لوگ ہیں جو تقسیم پاکستان کے بعد یہاں آئے اورایک ایک کمرے میں آٹھ سے دس لاکھ لوگ قیام پذیر ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت انہیں فی کمرہ دس لاکھ روپے دئیے ہیں او ر ان افراد کے لئے یہ گرانٹ مجموعی طو رپرتقریباً1.6ارب روپے بنتی ہے ۔مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ باغبانپورہ میں متاثرین کو مارکیٹ ریٹ سے چار سے پانچ گنا زائد ادائیگی کی گئی ہے ۔ میرے گھر کو بچانے کیلئے روٹ تبدیل کرنے کی بات درست نہیں۔ یہ عوامی فلاح کا منصوبہ ہے اور میرا خاندان نے اسے سراہا ہے اور اس کے لئے جتنی اراضی چاہیے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

متعلقہ عنوان :