بہت ہی قلیل لوگوں کے فعل کا الزام پوری مسلمان برادری پر عائد کرنے کا رحجان درست نہیں ،امریکی معاشرے کی ترقی میں مسلمان برادری کا کردار اہم ہے ، ہم امریکی ایک ہی کنبہ ہیں ،اکثر امریکی غلط طور پر اسلام اور دہشت گردی کو ایک ساتھ نتھی کرتے ہیں،ہ صدر جیفرسن اور جان ایڈمز اپنے پاس قرآنِ کریم کا نسخہ رکھا کرتے تھے، امریکی صدر براک اوباما کا اسلامک سوسائٹی سے خطاب

جمعرات 4 فروری 2016 12:16

واشنگٹن ۔ 4 فروری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔04 فروری۔2016ء) امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ بہت ہی قلیل لوگوں کے فعل کا الزام پوری مسلمان برادری پر عائد کرنے کا رحجان درست نہیں ،امریکی معاشرے کی ترقی میں مسلمان برادری کا کردار اہم ہے ، ہم امریکی ایک ہی کنبہ ہیں اور اکثر امریکی غلط طور پر اسلام اور دہشت گردی کو ایک ساتھ نتھی کرتے ہیں۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بالٹی مور کی مسجد الرحمٰن کی اسلامک سوسائٹی سے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ بہت ہی قلیل لوگوں کے فعل کا الزام پوری مسلمان برادری پر دھر دیا جاتا ہے جو درست نہیں ۔اس سے قبل صدر نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی جس کے دوران اْنھوں نے سوسائٹی کے ارکان سے تفصیلی گفتگو کی اورمسلمان اکابرین اور نمائندوں کے احساسات اور تشویش سے آگہی حاصل کی۔

(جاری ہے)

اْنھوں نے کہا کہ اِس ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایسے ناقابلِ معافی تاثر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اوباما نے کہا کہ اسلام امن، ہمدردی اور مثبت جذبات کا مذہب ہے جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں یکساں طور پر متبرک مقام کے حامل ہیں۔امریکی صدر نے بتایا کہ صدر جیفرسن اور جان ایڈمز اپنے پاس قرآنِ کریم کا نسخہ رکھا کرتے تھے۔

اوباما نے کہا کہ امریکا میں پہلی مسجد نارتھ ڈکوٹا میں تعمیر ہوئی، ملک کی سب سے پرانی مسجد آئیووا میں قائم ہے، جب کہ امریکا کی اولین فلک بوس عمارت شکاگو میں تعمیر ہوئی جسے ایک مسلمان نے ڈیزائن کیا تھا۔اْنھوں نے امریکا کے نامور کھلاڑیوں محمد علی اور کریم عبدالجبار کا ذکر کیا اور کہا کہ ملک کے مختلف شعبہ جات میں، جن میں طب، قانون، تعلیم اور سائنس بھی شامل ہیں، مسلمان امریکیوں کے فخریہ نقوش موجود ہیں۔

صدر نے نامور امریکی مسلمان خاتون ابتہاج محمد کا نام لیا جو حجاب پہنتی ہیں اور اولمپک فینسنگ کی معروف کھلاڑی ہیں۔ صدر نے کہا کہ مسلمان امریکی فوج کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں محنت اور جانفشانی سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ میڈیا پر مسمانوں کو مثبت انداز سے پیش کیا جائے ناکہ اْنھیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جائے جوبالکل ہی غلط تاثر ہے۔

اْنھوں نے کہا کہ القاعدہ یا داعش جیسی تنظیمیں کسی طور پر اسلام یا مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتیں ، یہ وہ ٹولے ہیں جو اسلام کے مہذب اور پْرامن مذہب کا غلط پرچار کرتے ہیں جس کا اسلام سے دور دور تک، قطعاً کوئی واسطہ نہیں ،القاعدہ اور داعش نے مختلف ملکوں میں جن لوگوں کو ہلاک کیا ہے اْن میں سب سے زیادہ تعداد بے گناہ مسلمانوں کی ہے۔اْنھوں نے کہا کہ یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے ماننے والوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام و قدر کریں، اور منفی سوچ کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔

صدر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ اسلام دہشت گردی کا درس دیتا ہے۔اوباما نے کہاکہ بدقسمتی سے مسلمان ملکوں میں ایسی تنظیمیں تشکیل پائیں اور سرگرم رہیں اور سرگرم ہیں جو باضابطہ طور پر تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں تاہم اْنھوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے دور دوسرے الہامی مذاہب یہودیت اور مسیحیتمیں بھی آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی ایک مذہب پر حملہ دراصل سارے مذاہب پر حملہ ہے اور اسلام پر حملہ تمام مذاہب پر حملے کے مترادف ہے۔

صدر اوباما نے افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمانوں میں شیعہ اور سنی کی تفریق پیدا کی گئی ہے جب کہ صدیوں سے دونوں فرقے مکمل مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں ، مسلمان مذہب و مسلک کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے والوں سے خبردار رہیں۔ صدر نے کہا کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے جس میں رحم، ہمدردی اور انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ آپ دوسروں سے اس طرح کا سلوک کریں، جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے سلوک روا رکھا جائے۔

متعلقہ عنوان :