پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے با وجود مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہیں کی جاسکی

گذشتہ مالی سال رائس ایکسپورٹ ٹریڈ بحرانوں کا شکار رہی حکومت پاکستان نے بر وقت مناسب اقدامات نہیں کئے تو رواں مالی سال بھی چاول کی برآمدات کو سخت ترین چیلینجز کا سامنا رہے گا ،چیئرمین ریپ

منگل 2 فروری 2016 20:45

ط کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔02 فروری۔2016ء ) پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے با وجود کوئی مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہیں کر سکا،گذشتہ مالی سال جولائی 2014 تا جون 2015 کے دوران رائس ایکسپورٹ ٹریڈ بحرانوں کا شکار رہی ہے اگر حکومت پاکستان نے بر وقت مناسب اقدامات نہیں کئے تو رواں مالی سال بھی چاول کی برآمدات کو سخت ترین چیلینجز کا سامنا رہے گا ۔

یہ بات رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سر پرست اعلیٰ عبد الرحیم جانو ،چوہدری محمد شفیق چیئرمین ریپ ، نعمان احمد شیخ سینیئر وائس چیئرمین اور رفیق سلیمان چیئرمین ایف پی سی سی آئی رائس ایکسپورٹ کمیٹی نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتائی ۔انہوں نے بتایا ہم ایک جدید رائس زون بنانا چاہتے ہیں جس میں ہمیں حکومت سے تعاون درکار ہے کہ وہ ہمیں ارزاں نرخوں پر گیس اور بجلی فراہم کرے اور زمین لینے کے لئے بھی مدد کرے جیسا کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے گودام جو کہ پیپری میں واقع ہیں اور وہ خراب ہورہے ہیں ہم وہ بھی مارکیٹ ریٹ پر خریدنا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس زمین پر اپنا رائس زون بنا سکیں جس کے بننے سے چاول کی بر آمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور جو ہمارا وژن چاول کی بر آمدات کو ڈھائی بلین ڈالر سے چار بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم بر یانی فیسٹیول بھی منعقد کرنا چاہتے ہیں جس میں چاول کی مختلف اقسام کی ڈشز پیش کی جاسکیں اس سے پاکستان کے چاول کی کوالٹی کا پتہ چلے گا اور اس فیسٹیول میں پورے پاکستان سے مختلف ممالک کے سفیروں اور قونصل جنرلز اور اعلیٰ حکومتی و غیر حکومتی عہدیداران کو مدعو کیا جائے گا جس سے پاکستان کی چاول کا امیج مزید بہتر ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال بین الاقوامی مارکیٹ میں چاول کی طلب میں کمی اور ر سد میں اضافے کا باعث چاول کی قیمتیں بے تحاشہ کمی کا شکار رہی جسکی وجہ سے پاکستان میں چاول کی ٹریڈ سے وابستہ افراد کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔ انڈیا میں حکومتی سطح پر کسانو ں کو بے تحاشہ مراعات ملتی ہیں جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے ہر سال پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث پاکستان کا کاشتکار تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔

ریپ بھی کاشتکار کی فلاح و بہبود چاہتی ہے اور اس کے لئے حکومت پاکستان سے درخواست کرتی رہی ہے کہ کسان کو بیج ، کھاد / فر ٹیلائزر ، پانی / بجلی / ڈیزل سبسڈی پر فراہم کیا جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آسکے اور پاکستانی رائس ایکسپورٹرز بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں ۔انہوں نے بتایا کہ ریپ نے کسانوں کی آگاہی کے لئے حکومت کو تجاویز دی ہیں جس پر ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوسکا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ چاول کے برآمد کنندگان کے مسائل حل کریں تاکہ چاول کی بر آمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے ۔

متعلقہ عنوان :