لیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف مختلف تھانوں میں 56مقدمات درج

3 میں مفرور ، 42مقدمات میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے،5مقدمات میں بری بھی ہو ئے، ملزم پر قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، منشیات اور دھماکہ خیز مواد سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں، مختلف مقدمات میں مجموعی طور پرعزیر بلوچ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقررہے

ہفتہ 30 جنوری 2016 20:27

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 جنوری۔2016ء ) سندھ رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والیلیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف مختلف تھانوں میں 56مقدمات درج ہیں ،3مقدمات میں مفرور جبکہ 42مقدمات میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے،وہ 5مقدمات میں بری بھی ہو چکا ہے ، عزیر بلوچ پر قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، منشیات اور دھماکہ خیز مواد سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں جبکہ مختلف مقدمات میں کل ملا کر عزیر بلوچ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ھ رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والیلیاری گینگ کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف مختلف تھانوں میں 56مقدمات درج ہیں ۔ ان کے خلاف مقدمات کی ابتداء کی 2004ء میں ہوئی، جب اس پر دفعہ 302کا مقدمہ درج کیا گیا پھر عزیز بلوچ پر مقدمات درج ہونے کا سلسلہ چل نکلا،اسی سال 2004ء میں ہی 6مقدمات، 2005ء میں ایک مقدمہ،2006ء میں 4،2008-9میں ایک ایک مقدمہ، 2012ء میں 40مقدمات جبکہ 2013-14ء میں ایک مقدمہ درج کیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ مقدمات کھارادر، کالا کوٹ، ماڑی پور، بغدادی، چاکیواڑہ کے تھانوں میں درج کئے گئے۔ عزیز بلوچ 3مقدمات میں مفرور جبکہ 42مقدمات میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے،وہ 5مقدمات میں بری بھی ہو چکا ہے ، عزیر بلوچ پر قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، منشیات اور دھماکہ خیز مواد سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں جبکہ مختلف مقدمات میں کل ملا کر عزیر بلوچ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی۔

عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں، عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔

پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔ عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔

عذیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔

ارشد پپو، عذیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عذیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔

اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عذیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عذیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔ غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عذیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔عذیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے۔

متعلقہ عنوان :