پاکستان میں ہر سال 2سے ڈھائی لاکھ افراد جسم کے اندرونی اعضاء کے ناکارہ ہونے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، ماہرین طب

1980سے اب تک صرف5افراد نے اپنے اعضاء عطیہ کیے ، بعد از مرگ انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے پر اب علماء کی طرف سے کوئی پابندی نہیں

جمعہ 29 جنوری 2016 22:02

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جنوری۔2016ء) پاکستان میں ہر سال 2سے ڈھائی لاکھ افراد جسم کے اندرونی اعضاء کے ناکارہ ہونے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، ہیپاٹائٹس کا تیزی سے پھیلنا جگر کے ناکارہ ہونے کا سبب ہے جس پر قابوپانے کی ضرورت ہے ،ایک انسان اپنے اعضاء عطیہ کرکے 17افراد کی زندگی بچا سکتا ہے ،1980سے اب تک صرف5افراد نے اپنے اعضاء عطیہ کیے ، بعد از مرگ انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے پر اب علماء کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔

ان خیالات کا اظہارایس آئی یوٹی کے سر براہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ، چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن اور شیخ زید اسلامک سینٹر جامعہ کراچی کے چیئر مین ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے جمعے کو کراچی پریس کلب میں عطیہ اعضاء اور اعضاء کی پیوند کاری کے حوالے سے مرتب کی گئی کتاب ’’مجموعہ خطبات ‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ،سیکرٹری اے ایچ خانزادہ اور غازی صلاح الدین نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جسم کے اندرونی اعضاء کو عطیہ کرنے سے متعلق قانون سازی کے باوجود بھی اعضاء کی خرید و فروخت ختم نہیں ہوسکی ،ہر سال 2لاکھ سے زائد افراد اندرونی اعضاء کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور اس کی ایک وجہ ہیپاٹائٹس کا تیزی سے پھیلنا ہے جس پر جلد از جلد قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس موذی مرض سے متاثر ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں 85فیصد لوگ غربت کی سطح سے بھی نچلی زندگی گزار رہے ہیں صرف15فیصد لوگوں کو سہولیات میسر ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ایک شخص بعد از مرگ اپنے اعضاء عطیہ کرکے17لوگوں کی زندگی بچا سکتا ہے جو بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے اور اب شرعی عدالت نے بھی اعضاء کو عطیہ کرنے کی منظوری دیدی ہے، سعودی عرب ،جارڈن اور مصر میں اعضاء کی پیوند کاری ہورہی ہے اور ایران اس حوالے سے سب سے بڑا مرکز ہے۔

ادیب رضوی نے کہا کہ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ وہ معاشرے میں بے وجہ مرنے والوں کی زندگی بچائیں تو انھیں چاہیے کہ وہ بعد از مرگ اپنے اندرونی اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کریں ، اس کتاب کے مرتب ہونے سے یہ ثابت ہو اکہ ہمارے علماء و اکابرین بہت روشن خیال ہیں ۔اس موقع پر چیئر مین رویت ہلا ل کمیٹی مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ملک میں ریاست کی سطح پر زکواۃ کا نظام موجود ہے لیکن لوگ سماجی و فلاحی اداروں پر حکومت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں ، ڈاکٹر ادیب رضوی اور انکی ٹیم رنگ ونسل ،مذہب اور مسلک سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں جو قابل ستائش ہے، عوام سے اپیل کرتاہوں کہ ادیب رضوی کے دست بازو بنیں کیونکہ بعد از مرگ جسمانی اعضاء کے عطیہ کرنے پر اب علماء کی طرف سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں رہی، جس ملک میں قوم کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر آمادہ کرنا مشکل ہو رہاں اعضاء کے عطیہ کرنے پر رضامند کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ادیب رضوی بذریعہ ٹرین مریضوں کا علاج کرنے ہر ہفتے سکھر جاتے ہیں اور اگلے روز واپس آکر ایس آئی یوٹی میں ڈیوٹی بھی کرتے ہیں ، حکومت ڈاکٹر ادیب رضوی کو ہیلی کاپٹر فراہم کرے تاکہ انھیں اپنے مشن کی تکمیل کے لیے آمد و رفت کی مشکل نہ ہو۔ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے کہا کہ تمام علماء کرام نے اعضاء کو عطیہ کرنے کی مہم میں بہت فراغ دلی سے ہمارا ساتھ دیا ہے ،تما م مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ اعضاء کو عطیہ کرنے کی شرعی اجازت ہے۔

انھوں نے کہاکہ پاکستان میں 1980سے اب تک صرف 5لوگوں نے اپنے اعضاء عطیہ کیے ہیں ،ڈاکٹر ادیب رضوی نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنا چراغ روش رکھا ہوا ہے ، عوام اس چراغ کی روشنی کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ تقریب کے اختتام پر پریس کلب کی جانب سے مہمانوں کو اجرک کا تحفہ دیا گیا جبکہ شرکاء میں کتاب تقسیم کی گئی ۔

متعلقہ عنوان :