سندھ اسمبلی ، اپوزیشن نے صوبائی حکومت کو تھر کی صورت حال کا ذمہ دار قراردے دیا

سندھ اسمبلی میں تھر کی صورت حال پر طویل بحث کے دوران جواب

جمعہ 29 جنوری 2016 21:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 جنوری۔2016ء) سندھ اسمبلی میں جمعہ کو سارا ایجنڈا موخر کرکے تھر کی صورت حال پر بحث کی گئی ۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت کو تھر کی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ بچوں کی اموات کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے ، بچوں کی ہلاکتوں کا روزانہ نیا سبب بیان کیا جاتا ہے ۔

وزیر اعلیٰ سندھ یہ کہتے ہیں کہ دائیوں کے ذریعہ زچگی کی وجہ سے یہ اموات ہوتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو اس پر معافی مانگنی چاہئے ۔ اسمبلی میں بھی ایسے ارکان موجود ہیں ، جن کی پیدائش دائیوں کے ذریعہ ہوئی ۔ انہوں نے حقائق کا جائزہ لینے کے لیے ارکان اسمبلی کی کمیٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ۔ حکومتی ارکان نے کہا کہ تھر کی صورت حال کے بارے میں غلط اعداد و شمار دیئے جا رہے ہیں اور حقائق کے برعکس صورت حال کو پیش کیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

جتنا پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھر کے لیے کام کیا ، اتنا کسی دوسری حکومت نے کام نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی کی غزالہ سیال نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تھر کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور غیر حقیقی اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں ۔ حکومت سندھ نے پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر تھر کی ترقی کے لیے انقلاب اقدامات کیے ۔

اس ترقی کو وہاں جا کر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت کو تھر کے مسائل کے لیے خصوصی بجٹ مختص کرنا چاہئے ۔ ایم کیو ایم کے محمد معین عامر پیرزادہ نے کہا کہ تھر کی ترقی کے لیے سب کچھ کاغذوں پر ہے ۔ زمین پر کچھ نہیں ہے ۔ اگر وہاں پینے کا صاف پانی اور غذا فراہم کی جاتی ہے تو پھر تھر کے لوگ غذائی قلت والی بیماریوں کا شکار کیوں ہیں ۔ یہ کہنا ظلم ہے کہ مٹھی کے اسپتال میں جو سہولتیں ہیں ، وہ دنیا کے کسی اسپتال میں نہیں ۔

حکومت کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے ۔ بچوں اور حاملہ خواتین کی غذا کے لیے خصوصی فنڈز رکھے جائیں ۔ تحریک انصاف کے سید حفیظ الدین نے کہا کہ ہمیں بھارت سے سبق سیکھنا چاہئے ، جس نے اپنے تھر کو ترقی دی ہے ۔ ہمیں مثبت انداز میں تھر کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہئے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے سعید نظامانی نے کہا کہ 29 دنوں میں 130 بچے تھر میں ہلاک ہو گئے ہیں ۔

یہ اموات سالہا سال سے ہو رہی ہیں لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ۔ اچھرو تھر میں تو سڑکیں بھی نہیں ہیں ۔ وہاں کوئی بڑا اسپتال بھی نہیں ہے حالانکہ یہ علاقہ سندھ کو گیس فراہم کرتا ہے ۔ وہاں کالج بھی نہیں ہے ۔ اس علاقے کو سب نے نظرانداز کیا ۔ پنجاب کے چولستان میں ایسی صورت حال پیدا کیوں نہیں ہوتی ۔ ارکان سندھ اسمبلی کو تھر کا دورہ کرایا جائے ۔

پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر شورو نے کہا کہ تھر کے جغرافیائی اور زمینی حقائق سامنے رکھے جائیں ۔ بچوں کی اموات اور خواتین کی غذائی قلت کے حوالے سے غلط اعداد وشمار بتائے جا رہے ہیں ۔ تھر کے مسئلے پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ بچوں اور خواتین کی اموات کی شرح وہی ہے ، جو پورے سندھ کی ہے ۔ تھر کی صدیوں کی پسماندگی دور کرنے اور وہاں صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہماری حکومت نے سب سے زیادہ کام کیا ۔

ایم کیو ایم کے پونجو مل بھیل نے کہا کہ اگر تھر میں صحت کی سہولتیں ہوتیں تو مریضوں کو حیدر آباد اور ٹھٹھہ کے اسپتالوں میں کیوں بھیجا جاتا ہے ۔ تھر کے لوگ انتہائی دکھی اور مشکل میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں کئی آر او پلانٹس نہیں چل رہے ہیں ۔ جنریٹرز کی مد میں حکومت کے لوگوں نے 50 لاکھ روپے حاصل کیے لیکن جنریٹرز نہیں خریدے گئے ۔ میڈیا اور حکومت کا گٹھ جوڑ ہے کہ تھر کی صورت حال کو خراب بیان کیا جا رہا ہے کیونکہ تھر کے نام پر بہت سے کام کیے جا رہے ہیں ۔

وزیر اعلیٰ سندھ سے کہیں کہ وہ ہماری خواتین کو ہزار ہزار روپے ادا کر کے ان کی بے عزتی نہ کریں ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ تھر کا ایشو قومی ایشو بن گیا ہے ۔ لوگ ہر جگہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ تھر میں کیا ہو رہا ہے ۔ تھر میں انسانی ایشو پیدا ہوا ہے ۔ معصوم بچے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ یہ ہمارے بچے ہیں ۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر کیوں مر رہے ہیں ۔

محکمہ صحت مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ارکان سندھ کا مشترکہ کمیشن تشکیل دیا جائے ، جو تھر کی صورت حال کا جائزہ لے ۔ آر او پلانٹس کی تنصیب میں کرپشن ایک میگا اسکینڈل ہے ۔ حکومت سندھ اگر تھر کے معاملات نہیں سنبھال سکتی ہے تو بین الاقوامی اداروں سے مدد لے ۔ مسلم لیگ (ن) کی سورٹھ تھیبو نے کہا کہ حکومت کا یہ جواز شرمناک ہے کہ دائیوں کے ذریعہ زچگی اور کم عمری کی شادی کی وجہ سے تھر میں بچے ہلاک ہو رہے ہیں ۔

حقائق جاننے کے لیے کمیشن قائم کیا جائے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے کہا کہ بچوں کی ہلاکت کے روزانہ نئے اسباب بیان کیے جاتے ہیں ۔ بچوں کی اموات سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی اسامیاں ابھی تک خالی ہیں ۔ گندم کی تقسیم میں بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں ۔ اربوں روپے کے آر او پلانٹس ناکارہ پڑے ہیں یا ان کا پانی پینے کے قابل نہیں ۔

سب سے زیادہ ناکامی بنیادی صحت کے شعبہ میں ہے ۔ ایڈہاک کی بنیاد پر اس شعبہ کو چلایا جا رہا ہے ۔ خدارا حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے کہا کہ تھر میں زیادہ تر مسائل ثقافتی روایات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے بڑے صوبے میں اسپتالوں میں آکسیجن نہ ہونے سے بچوں کی اموات کی رپورٹس آتی ہیں لیکن تھر کے حوالے سے کبھی ایسی رپورٹ نہیں آئی کہ آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی موت ہوئی ہو ۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہلی مرتبہ مفت گندم تقسیم کی ۔ حکومت سندھ نے بہت کاوشیں کی ہیں اور ہماری نیت بھی صاف ہے ۔ تھر کے لوگوں کو مسائل سے نکالنے کے لیے ثقافتی روایات میں تبدیلی لانا ہو گی ۔ آہستہ آہستہ صورت حال بہتر ہو رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی نے کہا کہ تھر کے علاقوں میں ڈاکٹرز کی حاضری کو یقینی بنانا اور غذائی قلت کے خاتمے کی ذمہ داری حکومت پر ہے ۔

کوئی تاویلیں پیش نہیں کی جانی چاہئیں ۔ بچوں کی اموات کو روکنا چاہئے ۔ یہ انسانی مسئلہ ہے ۔ تھر کے ڈومیسائل رکھنے والے تمام ڈاکٹرز کو وہاں تعینات کیا جائے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ تھر پر بحث کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ اور افسران ایوان میں موجود نہیں ہیں ۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے ۔ تھر کی ترقی کے لیے اپروچ بدلنا پڑے گی اور لوگوں کے معاشی حالات میں بہتری لانا ہو گی ۔

وزیر خوراک سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ہم تھر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔ ہم ان کے ساتھ ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں تھر کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور آئندہ بھی بہت کچھ کرے گی ۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ تھر کی صورت حال جس طرح پیش کی جا رہی ہے ، اس طرح نہیں ہے ۔ اس کے باوجود جو بھی صورت حال ہے ، حکومت اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے ۔

یہ کہنا غلط ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تھر کے لیے کچھ نہیں کیا ہے ۔ تھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا ۔ جگہ جگہ آر او پلانٹس نصب کرکے پینے کا صاف پانی فراہم کیا گیا ۔ اس سے پہلے تھر کے لوگوں کے لیے اتنا کام کبھی نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے 7 مرتبہ تھر کے لوگوں میں مفت گندم تقسیم کی اور اب 8ویں مرتبہ گندم تقسیم کی جا رہی ہے ۔

گندم کی تقسیم میں بے قاعدگی اور کرپشن ہوئی ہو گی ۔ اب حکومت نے تقسیم میں شفافیت کے لیے اقدامات کیے ہیں ۔ حکومت سندھ نے 4 ارب روپے کی گندم تقسیم کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اچھرو تھر میں کوئی کام نہیں کیا گیا ۔ وہاں پانی کی 60 کلو میٹر پائپ لائن بچھائی گئی ۔ نارا کینال کی لائننگ کی جا رہی ہے ۔ وہاں 400 آر او پلانٹس چل رہے ہیں ۔

سڑکوں کی تعمیر کے بھی کئی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لیے جلد قانون سازی کی جائے گی ۔ وہاں بارانی یونیورسٹی کا کیمپس بھی قائم کیا جا رہا ہے ۔ سولر ٹیوب ویلز پر بھی کام ہو رہا ہے اور بھی بہت سے منصوبے ہیں ، جو تھر کے حالات تبدیل کر سکتے ہیں ۔ دیگر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے بھی بحث میں حصہ لیا ۔ بحث جاری تھی کہ اسپیکر نے اجلاس پیر یکم فروری کی صبح تک ملتوی کر دیا ۔ پیر کو بھی یہ بحث جاری رہے گی۔