قانون توہین رسالتﷺ کی منسوخی برداشت نہیں، اس کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے موثر اقدامات ضروری ہیں‘ پروفیسر ساجد میر

توہین رسالتﷺ کے جھوٹے الزامات پر بھی موت کی سزا ہونی چاہیے ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خاں شیرانی کو قانون توہین رسالت پر نظرثانی کے بیان کی وضاحت کرنی چاہیے‘ جمعہ کے اجتماع سے خطاب

جمعہ 29 جنوری 2016 19:15

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 جنوری۔2016ء) امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان پروفیسر ساجد میر نے کہاہے کہ توہین رسالتﷺ کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیئے موثر اقدامات ضروری ہیں تاہم اس قانون کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہیں اس لئے اس قانون کی منسوخی برداشت نہیں کی جائے گی اور ایسی کسی بھی حرکت کو توہین رسالتﷺ کے مجرموں کو بچانے کی کوشش قرار دیا جائے گا۔

جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ملک میں قتل کے جھوٹے پرچوں اور جھوٹی گواہیوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں بالکل اسی طرح ہو سکتا ہے قانون توہین رسالتﷺ کے بعض مقدمے حقائق پر مبنی نا ہوں لیکن محض اس بنیاد پر قانون میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں نکالی جاسکتی۔

(جاری ہے)

اس سے توہین آمیزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔نبی ﷺ کی حرمت اور تقدس پر کوئی آنچ بھی برداشت نہیں کی جاسکتی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خاں شیرانی کو قانون توہین رسالت پر نظرثانی کے بیان کی وضاحت کرنی چاہیے۔کیا واقعی حکومت کا واقعی کوئی ایسا ارادہ ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے۔جہاں تک اس قانون کی نفاذ کی شفافیت اور اسکے ناجائز استعمال کا تعلق ہے تو اس پر بحث ہو سکتی ہے۔پروفیسر ساجد میرنے کہا کہ پاکستان میں آج تک اس قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپھانسی نہیں دی گئی۔

اب تک گیارہ کیسز میں سزا سنائی گئی جبکہ عمل ایک پر بھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ توہین رسالتﷺ کے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہیں، انہیں بھی موت کی سزا دینی چاہئیے تاہم قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے قانون بدلا نہیں جاتا، بلکہ اس کو موثر رکھتے ہوئے غلط استعمال کو روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ ناموس رسالت کا موجودہ قانون، وحی، مسلمانوں کے عام تاثر، آئمہ مذاہب کے فقہی مسالک اور حالات حاضرہ کے عین مطابق ہے۔

کیونکہ توہین رسالت کی علی الاطلاق ’’قتل‘‘ کی سزا قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے، یہ کسی مسلک کے خلاف بھی نہیں اور جرم کے مکمل سدباب کے لیے، سیاسی اور عقلی اعتبار سے بھی، اس کی سزا ’’موت‘‘ سے کم ہرگز نہیں ہوسکتی۔

متعلقہ عنوان :